مدرسہ، منبر، فرقہ واریت اور مذہبی سیاست، یہ سب مظاہر موجودہ شکل میں برطانوی استعمار کے تسلط سے پیدا ہونے والے تاریخی انقطاع سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ماقبل استعمار معاشرے میں مدرسہ، وقف…
افکار عالم
پاکستان
نقطہ نظر
مدرسہ ڈسکورسز کا یہ تیسرا بیچ ہے اور اس تیسرے قافلے میں…
کالا تو خیر باہر سے ہی کالا ہے مگر بہت سے گورے…
بروز اتوار 2 اکتوبر 2010 کو مردان شہر میں ڈاکٹر محمد فاروق…
عامرعبداللہ ہم زندگی کے جس شعبہ میں بھی ہوں اپنی حدود خود…
حریفانہ کشاکش سیاست واقتدار کا جزو لاینفک ہے اور تضادات کے باہمی…
اس وقت افغان عوام کی ہنگامی مدد کے بجائے اور ان کی منجمد رقم میں اوپر سے پیسہ ڈالنے کے بجائے ان کی امانت پر سیند لگانا کسی لاش کی کلائی سے گھڑی اور بے جان پیروں سے جوتے اتار کے بھاگنے جیسا ہے۔کوئی فرد یا ادارہ یہ حرکت کرتا تو شاید صبر آ جاتا مگر 80 سالہ عزت مآب نے اس ایک حرکت سے جس طرح خود کو ذلت مآب میں تبدیل کر لیا ہے، اس پر حیرانی بھی انگشت بدنداں ہے۔
بين الاقوامى
بنگلہ د یش کے معصوم طلبہ شاید یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کتنی بڑی تبدیلی کا راستہ ہموار کیا ہے اورمسلم نیشنل از م کے مخا لفو ں کے کتنے اہم دلائل کو دریا برد کر دیا ہے۔ اگر یہ بات اتنی سادہ ہوتی، تو اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ما ن لیا کہ 1971 کی تحریک کی طرح، آج کی تحریک بھی مقامی ہے۔ اگر عوامی لیگ نے پچھلے تین انتخابات میں اتنی دھاندلی نہ کی ہوتی، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ لیکن اس مقامی تبدیلی کے نیچے ایک نظریاتی لہر بھی ہے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ سیکولر عوامی لیگ کے مقابلے میں، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، اور دیگر طلبہ تنظیموں میں بے شمار اسلام پسند طلبہ کی امیدیں شامل ہیں۔ اور اس وقت کے سیاسی ا کٹھ میں معا شر ے کے روشن خیا ل طبقا ت جن کی نما ئند گی ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں، ا ن کے سا تھ عوامی لیگ کے ظلم کے ہاتھوں مجبو ر دائیں بازو کے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں ۔ اس سب نے ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جو پورے برصغیر کی سیاست کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اگر اُن کو اور…
حال ہی میں ابو ظہبی میں ہندو مذہب کا مندر تعمیر کیا…
۲۴ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، آج کل وطنِ…