فن و ثقافت

نقطہ نظر

"ایچ ای سی نے ورلڈ بینک سے چار سو ملین ڈالر کے قرض کا جو معاہدہ ہائیر ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ کے لئے کر رکھا ہے اس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو جامعات میں ترویج دینے’ کلاوڈ کی سہولت سمیت دیگر کئی اہم پہلو شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی اس معاہدے کی جزئیات کو جامعات کے ساتھ فوری طور پر شئیر کر کے آن لائن تعلیم کے سلسلے میں ٹیکنالوجی سے متعلقہ جو چیلینجز سامنے آ رہے ہیں ان کے حل کے لئے آگے بڑھے۔ آن لائن تعلیم کی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے اور اس سے وابستہ دیگر اخراجات کو اگر جامعات پر ہی مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا تو اس سے نہ صرف کوالٹی متاثر ہوگی بلکہ کئی جامعات اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گی۔ ماضی میں جب تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے سنجیدہ خدشات سامنے آئے تھے تو جامعات میں سیکیورٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لئے ایچ ای سی نے حکومت پاکستان سے خصوصی گرانٹ حاصل کر کے جامعات کی مدد کی تھی۔ اس وقت بھی ایچ ای سی سے اس قسم کے لیڈر شپ رول کی توقع کی جا رہی ہے کہ ٹیکنکل معاونت و مشاورت کی اہمیت اپنے جگہ مگر مالی و مادی تعاون کے بغیر آن لائن تعلیم اور اس سے وابستہ ٹیکنالوجی کا حصول تمام جامعات کے لئے ممکن نہیں ہوسکے گا۔”

ہمارے معاشرے میں سیاست اگر گالی کا متبادل ہے اور صحافی بہت بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ وہ چلن بھی ہے جو ان دونوں شعبوں میں اختیار کیا گیا۔ ہم بہت فکر مند ہیں کہ سیاست بے توقیر اور صحافت کی جڑیں کیوں کھوکھلی ہوئی جاتی ہیں؟ یہ فکر مندی بجا لیکن اس فکر کے ساتھ اب ہمیں ایک فکر اور بھی پال لینی چاہئے کہ دراصل یہ ہمارا اپنا ہی چلن ہے جس نے قومی زندگی اور آزادی اظہار کے مقدس حق کی مٹی پلید کر کے معاملات کو یہاں تک پہنچا دیا۔ یہ بحث طویل ہے اوربہت سے چشم کشا پہلو اپنے اندر رکھتی ہے جس پر متوجہ ہوئے بغیر ہمارے آزار کا چارہ ممکن نہیں۔

بين الاقوامى