نقطہ نظر

اس موضوع پر اپنی پہلی پوسٹ میں میں نے دس نکات ذکر کیے تھے جن میں صرف ایک نکتے پر، حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے تبصرہ کرنا مناسب سمجھا اور وہ ارتداد کے متعلق میری راے تھی۔ ان کو یہ تاثر ملا ہے کہ شاید میں ارتداد کی بحث نئے سرے چھیڑرہا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ارتداد، زندقہ، فتنہ وغیرہ کی باتیں دوسرے اہل علم کررہے ہیں اور مجھ سے کئی لوگوں نے اس کے متعلق استفسار کیا تو مجھے وضاحت کرنی پڑی کہ میری ذاتی راے یہ ہے لیکن دستوری اور قانونی پوزیشن اس سے مختلف ہے۔ میری اس موجودہ پوسٹ سے شاید میری بات زیادہ واضح ہوگئی ہو کہ میں اس موجودہ دستوری پوزیشن کو چھیڑنے کے حق میں نہیں ہوں اور اسی لیے میں اس سوال پر بحث ہی نہیں کررہا کہ یہ دستوری پوزیشن کسی اجتہاد کے نتیجے میں مقرر کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت علامہ راشدی صاحب بارہا علامہ اقبال کے مشورے کا حوالہ دیتے ہیںِ یا یہ محض وقتی طور پر ایک ممکنہ حل تھا جو 1974ء میں معروضی حالات میں ممکن تھا اور اسی وجہ سے قبول کیا گیا کہ یہ ہوجائے تو پھر بعد میں اس سے آگے جائیں گے، جیسا کہ کئی دیگر اہل علم کی راے ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ یہ اجتہاد ہو یا وقتی ممکنہ حل، اسے تبدیل کرنے کی کوشش کے مفاسد زیادہ ہوں گے اور اس لیے اس دستوری و قانونی پوزیشن پر اکتفا کرکے اس کی روشنی میں قادیانی فتنے، یا زندقہ، یا ارتداد سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا چاہیے۔

بين الاقوامى