افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع ہونے پر پوری دنیا سے مثبت رد عمل سامنے آ رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں سمیت خطے کے تمام ممالک کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
افغانستان پر سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد اور اس سے قبل بھی افغانستان کے ہمسایہ ملکوں ایران اور پاکستان کے علاوہ انڈیا، چین اور خلیجی ریاستوں نے، جو بلاواسطہ یا بلواسطہ افغانستان کی لڑائی میں کسی نہ کسی طرح شریک رہی ہیں، دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز پر اپنے پیغامات میں افغانستان میں پائیدار قیام امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انڈیا اور پاکستان، جن کی باہمی چپقلش اور کھینچا تانی افغانستان کی سرزمین پر بھی جاری رہی ہے، کے وزرائے خارجہ نے دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں مواصلاتی رابطے کے ذریعے خطاب کیا۔
Historic day for #AfghanPeaceProcess. ?? has long maintained peace not war is the answer. We are proud to champion a partnership for peace and move forward with faith & resolve that will not be deterred. Pakistan will continue to be a force for a stable & prosperous region. ?? ?? pic.twitter.com/LklaDo7SGu
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) September 12, 2020
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ‘ویڈیو لنک’ کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان قوم کی طرف سے امن کی تلاش میں کی جانے والے کوششوں میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں قیام امن کے لیے ایک چار نکاتی لائحہ عمل بھی پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ:
انہوں نے پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ قیام امن، ترقی اور سلامتی کے سفر میں پاکستان افغانستان کے لوگوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے قیام امن کے اس عمل میں رخنہ اندازوں کی طرف سے خلل ڈالنے کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ ایک ‘کڑے چیلنج’ کے طور پر اس کا سامنا رہے گا۔
انڈیا کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ہفتے کو ٹیلی کانفرنس کے ذریعے دوحہ میں جاری اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے عمل میں افغانستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امن کے اس عمل میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی جانی چاہیے، خواتین، اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور ملک میں جاری تشدد کو موثر طور ختم کیا جانا چاہیے۔
اپنے خطاب کا خلاصہ اپنے ٹوئٹر پیغامات میں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈیا کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں شروع ہونے والی امن کی کوششیں کی قیادت افغانستان کے لوگ کریں، ان کے پاس ہی اس کا اختیار ہو اور وہ ہی ان کو چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان دوستی کے رشتے کی گواہ تاریخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے افغانستان میں جاری 400 سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں سے افغانستان کا کوئی کونا محروم نہیں ہے۔
بی بی سی پشتو سروس کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں قطر اجلاس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران افغانستان میں سیاسی جماعتوں اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
ایرانی حکومت کو امید ہے کہ یہ بات چیت غیر ملکی مداخلت کے بغیر افغان عوام کے طے شدہ اہداف کو حاصل کرے گی اور خطے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سلامتی میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان جنگ کا فوجی حل ناممکن تھا اور بات چیت کے ذریعے جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی جنگ جاری رکھنے کی سب سے بڑی وجہ تھی اور غیر ملکی فوج کو ذمہ داری کے ساتھ افغانستان سے چلے جانا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہر حال میں افغان امن عمل کی حمایت کرتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران امریکہ کی جانب سے ’افغان امن‘ نام کے استعمال کی شدید مذمت کرتی ہے۔
قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم التہانی نے،طویل عرصے سے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار گروہوں سے کہا کہ وہ وقت کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک معاہدے پر پہچنے کے لیے حتمی فیصلہ کریں جو فاتح اور مفتوح کی بنیاد پر نہ کیا جائے۔
قطر نے مختلف دھڑوں ، علاقوں اور بعض ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے علاقائی و عالمی سطح پر سفارتی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ حالیہ افغان امن عمل میں قطر کی کوششیں اختلافات و تنازعات کے مستقل اور دیر پا حل کے لیے قطر کے مفاہمتی کردار پر پختگی کا ثبوت ہے۔
قطر نے مختلف دھڑوں ، علاقوں اور بعض ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے علاقائی و عالمی سطح پر سفارتی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ حالیہ افغان امن عمل میں قطر کی کوششیں اختلافات و تنازعات کے مستقل اور دیر پا حل کے لیے قطر کے مفاہمتی کردار پر پختگی کا ثبوت ہے۔@qataremb_isb @GCOQatar https://t.co/Hk0AQUYvVb
— Afkar Pak (@AfkarPak) September 12, 2020
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے قطر میں مذاکرات کے جواب میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان اسلامی تحریک کے نمائندوں کے مابین باضابطہ مذاکرات خوشخبری اور امید و مسرت کا باعث ہیں۔
اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے مسٹر کرزئی نے فیس بک پر لکھا ، ’یہ پائیدار امن و استحکام اور افغان عوام کے دکھوں کو ختم کرنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔‘
صدر کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے عوام دوحہ میں مذاکرات کرنے والے فریقین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ملک میں پائیدار امن، سلامتی، استحکام، اور قومی اتحاد کو مضبوط بنانے اور افغانستان کی مسلم قوم کے مفادات کے لیے اپنی اسلامی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں گے۔
انہوں نے کہا ، ’تاریخ کے اس نازک موڑ پر ، ہمارے پیارے ملک میں امن اور سلامتی تمام ممالک کی ترجیح ہے۔ ایک ایسا امن جو طویل مدتی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرے گا۔‘