سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم کے نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر محمود اشرفی کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ 11 اپریل کو طاہر محمود اشرفی کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھا گیا خط محض الزام تراشیوں اور جھوٹے بیانات پر مبنی ہے۔ طاہر اشرفی نے اپنے خط میں وہ باتیں جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف منسوب کی ہیں، جو انہوں نے اسلام آباد بار کونسل سے خطاب میں تحریراً یا تقریراً نہیں کہی تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا جج ہونا محض اللہ کا کرم اور فضل سمجھتے ہیں، انہیں جس دن اس کا احساس ہوا کہ وہ انصاف کرنے کے اہل نہیں رہے، تو بغیر کسی تردد کے مستعفی ہوجائیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان میں دورآمریت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کسی چیف جسٹس کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی جج سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دورآمریت میں عدلیہ پر حملے ہوئے اور ججز کو جبراً گھر بھیجا گیا مگر طاہر اشرفی جیسے کسی دانشور نے اس پر صدائے احتجاج بلند نہ کی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں 17 نکات درج کیے ہیں جو قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے مزین ہیں۔ ان نکات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ عدالتی عہدوں کے کبھی متمنی نہیں رہے اور اپنی خدمات کو ایک دینی فریضہ سمجھ کے ادا کررہے ہیں۔