Author: خورشید ندیم

مصنف اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔

مہنگائی کا طوفان ہے اور سب اس کی لپیٹ میں ہیں‘الا اُمرا کا طبقہ جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔یہ مہنگائی کیوں ہے؟یہ بحث‘اس وقت بے معنی ہے۔ پولیٹیکل اکانومی کی شُد بُد رکھنے ولا جانتا ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میںحالیہ اضافہ‘اس معاہدے کا ناگزیر نتیجہ ہے جو سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی راہِ فرار نہیں تھا۔ عام آدمی کے لیے مگر اس استدلال کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ وہ تو اتنا جانتا ہے کہ جب پٹرول کی قیمت میں‘محض ایک ہفتے کے دوران میں…

Read More

مسیحا کون ہوتا ہے؟ کیا اُس کے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ تنِ تنہا سب مسائل حل کر دیتا ہے؟مسیحا ایک مذہبی کردار ہے۔ یہ ایک ایسے نجات دہندہ کا تصور ہے جس کا تعلق الہامی سکیم سے ہے۔ خدا کا نمائندہ جو انسانوں کو اخروی کامیابی ہی کا پروانہ نہیں دیتا، دنیاوی غموں سے بھی نجات دلاتا ہے۔ یہودی روایت میں ہے کہ سیدنا دائودؑ کی نسل سے ایک آنے والا آئے گا جسے دنیا کا اقتدار ملے گا اور وہ بنی اسرائیل کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے، اس عالمِ رنگ وبو پر، ان کی عالمگیر…

Read More

تصادم کی طرف بڑھتے قدم کیا روکے جا سکتے ہیں؟موضوعات بہت ہیں جو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ جیسے اسرائیلی وزیر اعظم کا دورۂ ترکی‘ جیسے روس یوکرین لڑائی کے معاشی اثرات‘ مگر جب گھر میں آگ لگی ہو تو اڑوس پڑوس کا کسے ہوش۔ مارچ کے دنوں میں اسلام آباد پھولوں سے سج جاتا ہے۔ آج مگر ان پر شوخی نہیں، اداسی کا غلبہ ہے۔ رنگ ہیں مگر وہ منظر کہاں جو حسرت نے بیان کیا ہے ‘دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام‘۔ زبانِ قال نہیں ہے تو کیا ہوا، یہ گلاب و سمن زبانِ حال سے…

Read More

معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے‘جتنا خیال کیا جا رہا ہے۔اختلاف اس میں نہیں ہے کہ نعرہ بلند کرتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتی گئی۔’میراجسم‘میری مرضی‘در حقیقت ایک مکمل فلسفۂ حیات کی ترجمانی ہے۔اسے ‘لبر ل ازم‘ کہتے ہیں۔اعتراض نعرے کے الفاظ پر نہیں‘اس تصورِ زندگی پر ہے جسے اس نعرے میں بیان کیا گیا ہے۔اہلِ مذہب کا اعتراض عورت کے حقوق پر نہیں‘اس تصورِ حیات پر ہے۔ ‘میرا جسم‘میری مرضی‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک آزاد عورت ہوں۔ میرے جسم پر صرف میری مرضی چلے گی۔کوئی مذہبی حکم‘کوئی تہذیبی قدر یاریاست کا کوئی قانون اس…

Read More

میں اس پارک میں پہلی بار نہیں آیا تھا لیکن آج سے پہلے اس تنوع پر کبھی اس طرح سے غور نہیں کیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ رنگا رنگی ہی ز ندگی کا اصل حسن ہے۔ اگر اس معاشرے میں مصلحین نہ ہوں جو لوگوں کو حیا جیسی اقدار کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو انسانی جذبات بے لگام ہو جائیں۔ اگر محبت کرنے والے نہ ہوں تو سماج لطیف احساسات سے خالی ہو جائے۔ کوئی شاعری ہو نہ موسیقی۔ اور اگر پیارے پیارے بچے اور ان کے پیچھے دوڑتی مائیں نہ ہوں تو انسان معصومیت کو کیسے مجسم دیکھے

Read More

ہمارے مقدر میں اور کتنے اجتماعی قتل لکھے ہیں‘صرف عالم کے پروردگار کو خبر ہے جو دلوں کے بھید جانتاہے۔سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ثابت نہ ہو سکا۔علما سے لے کر ریاست تک‘بظاہر سب نے تشویش کا اظہار کیا۔

Read More

خورشید ندیم انسانی جسم میں سور کے دل کی پیوند کاری پر، جاوید احمد صاحب غامدی بڑی حد تک وہی بات کہتے دکھائی دیے جو روایتی علما کا موقف ہے۔ جاوید صاحب کی تعریف میں رطب اللسان، بہت سے روشن خیالوں کو اس پر حیرت ہوئی۔ ان کا تبصرہ تھا کہ اندر سے یہ بھی مولوی نکلے۔مذہبی روشن خیالی، کیا اس کا نام ہے کہ ہر نئے خیال یا امکان کے لیے مذہبی متون سے دلیل تلاش کی جائے؟ بہت سے لوگ ان علما اور سکالرز ہی کو روشن خیال مانتے ہیں جو ہر نئی بات کو مذہبی دلیل فراہم…

Read More

خورشید ندیم چالیس برس کے غور و فکر کا حاصل ‘اجتہاد‘ کے عنوان سے میرے سامنے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علم و فکر کا ایسا مظہر چالیس سالہ ریاضت کے بعد ہی وجود میں آ سکتا ہے۔سوچ بچار کے ایک مسلسل عمل کا یہ پانچواں نقش ہے۔ پہلا نقش ‘کسی اور زمانے کا خواب‘ کے عنوان سے 2004ء میں سامنے آیا۔ دوسرا نقش اس کا انگریزی ترجمہ تھا جس کا پیش لفظ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے لکھا۔ اس فکری عمل کا تیسرا مظہر بھی انگریزی میں تھا: ‘اسلام معاصر دنیا میں: ایک نیا بیانیہ‘ (Islam in the Contemporary World…

Read More

خورشید ندیم ڈاکٹر عبدالقدیرخان پاکستان کی تاریخ کے ایک منفرد کردار ہیں۔ مقبول بھی اور متنازع بھی۔مقبول عوام میں‘متنازع حکام میں۔ ہماری تاریخ کے دو کردارایسے ہیں جنہوں نے عوامی خواب کو تعبیر میں بدلا۔ایک قائد اعظم۔جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قائداعظم نے اسے واقعہ بنا دیا۔دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ایک خواب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کادیکھا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے تعبیردے دی۔یہ پاکستان کا قیام ہو یا ایٹمی پروگرام‘اتنے بڑے واقعات‘کسی فردِواحد کے بس میں نہیں ہوتے۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ بہت سے رجالِ کار کی شب وروز کی محنت کا حاصل ہوتے…

Read More

آج اگر سیاست کا بھرم کسی حد تک قائم ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کے دم سے۔وہ صفِ اوّل کے واحد سیاست دان ہیں‘ جن کی زبان میں لکنت ہے نہ لہجے میں کوئی تردد۔ جو قدرتِ اظہار ہی نہیں، جرأتِ اظہار بھی رکھتے ہیں۔ جن کے الفاظ نپے تلے ہی نہیں ہوتے، واضح اور ابہام سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ جو تلخ سیاسی حقائق کے بیان میں مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جو حکیمِ فرزانہ ہی نہیں، پیکرِ جرأتِ رندانہ بھی ہیں۔ جن کی زبان ان کے دل کی رفیق ہے۔ ‘2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی‘ یہ…

Read More