Author: خورشید ندیم

مصنف اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔

برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک باحجاب خاتون کا مجسمہ نصب کیا جا رہا ہے۔اس مجسمے کوقوتِ حجاب (The Strength of the Hijab) کا نام دیا گیا ہے۔ اس پر لکھا ہے: ”یہ ایک خاتون کا حق ہے کہ اسے محبت و احترام سے نوازا جائے‘ قطع نظر اس کے کہ اس کا لباس کیسا ہے۔ ایک خاتون کی قوت کا مرکز اس کا دل ہے اور اس کا دماغ‘‘۔ مجسمہ ساز کا کہنا ہے: ”یہ اسلام کو ماننے والی اُس خاتون کی نمائندگی ہے جو حجاب کا اہتما م کرتی ہے۔ وہ اس معاشرے کا اہم حصہ ہے لیکن…

نیا مشر قِ وسطیٰ اُبھر رہا ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو ہمارے مذہبی تصورات اور قومی بیانیے کا حصہ ہے۔یہ خطہ ابراہیمی روایت اور تاریخ کا امین ہے۔ بیت اللہ یہیں ہے اور بیت المقدس بھی۔ یوں یہ خطہ اس پورے سیارے پر سب سے مختلف اور منفرد ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کے ہر حصے سے کوئی نہ کوئی مذہب منسوب ہے۔ جیسے ہماری سرزمین سے بدھ مت اور ہندو مت۔ تین فرق مگر ایسے ہیں جن کی وجہ سے ابراہیمی ادیان دوسرے مذاہب کی نسبت عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کی زیادہ صلاحیت اور…

اس میں کیا شبہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اختلاف کا اظہار کیا شائستگی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا؟مشترکہ مفاد مختلف الخیال گروہوں کو یک جا کر دیتا ہے۔ سیاست میں یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں۔ مشترکہ مفاد لازم نہیں کہ منفی ہو،یہ مثبت بھی ہو سکتا ہے جیسے جمہوریت کی بحالی۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں سب سے پارسا سیاسی شخصیات ایسے اتحادوں کا حصہ رہی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف بھی باقی رہا ہے۔ ایوب خان مرحوم کے خلاف سیاسی اتحاد بنا۔ قومی اتحاد بھی ایسا ہی ایک…

مزاحمت پیپلز پارٹی نے کی، نواز لیگ نے کی، عوامی لیگ نے کی اور تحریکِ انصاف نے بھی کی۔ ان مزاحمتوں کے نتائج مگر ایک جیسے نہیں رہے۔ یہ دو طرح کی مزاحمتیں ہیں۔ اِن میں نقطہ نظر کا فرق ہے اور حکمتِ عملی کا بھی۔ درست تر الفاظ میں، اصل فرق سیاسی بلوغت اور عدم بلوغت کا ہے۔ میرے تجزیے کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو ظاہر و باہر ہیں۔ سیاست مگر وہی نہیں ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ واقعات کے پس پردہ بھی ایک دنیا ہوتی ہے۔ یہ قیاس اور استنباط کی دنیا ہے۔…

مہنگائی کا طوفان ہے اور سب اس کی لپیٹ میں ہیں‘الا اُمرا کا طبقہ جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔یہ مہنگائی کیوں ہے؟یہ بحث‘اس وقت بے معنی ہے۔ پولیٹیکل اکانومی کی شُد بُد رکھنے ولا جانتا ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میںحالیہ اضافہ‘اس معاہدے کا ناگزیر نتیجہ ہے جو سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی راہِ فرار نہیں تھا۔ عام آدمی کے لیے مگر اس استدلال کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ وہ تو اتنا جانتا ہے کہ جب پٹرول کی قیمت میں‘محض ایک ہفتے کے دوران میں…

مسیحا کون ہوتا ہے؟ کیا اُس کے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ تنِ تنہا سب مسائل حل کر دیتا ہے؟مسیحا ایک مذہبی کردار ہے۔ یہ ایک ایسے نجات دہندہ کا تصور ہے جس کا تعلق الہامی سکیم سے ہے۔ خدا کا نمائندہ جو انسانوں کو اخروی کامیابی ہی کا پروانہ نہیں دیتا، دنیاوی غموں سے بھی نجات دلاتا ہے۔ یہودی روایت میں ہے کہ سیدنا دائودؑ کی نسل سے ایک آنے والا آئے گا جسے دنیا کا اقتدار ملے گا اور وہ بنی اسرائیل کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے، اس عالمِ رنگ وبو پر، ان کی عالمگیر…

تصادم کی طرف بڑھتے قدم کیا روکے جا سکتے ہیں؟موضوعات بہت ہیں جو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ جیسے اسرائیلی وزیر اعظم کا دورۂ ترکی‘ جیسے روس یوکرین لڑائی کے معاشی اثرات‘ مگر جب گھر میں آگ لگی ہو تو اڑوس پڑوس کا کسے ہوش۔ مارچ کے دنوں میں اسلام آباد پھولوں سے سج جاتا ہے۔ آج مگر ان پر شوخی نہیں، اداسی کا غلبہ ہے۔ رنگ ہیں مگر وہ منظر کہاں جو حسرت نے بیان کیا ہے ‘دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام‘۔ زبانِ قال نہیں ہے تو کیا ہوا، یہ گلاب و سمن زبانِ حال سے…

معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے‘جتنا خیال کیا جا رہا ہے۔اختلاف اس میں نہیں ہے کہ نعرہ بلند کرتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتی گئی۔’میراجسم‘میری مرضی‘در حقیقت ایک مکمل فلسفۂ حیات کی ترجمانی ہے۔اسے ‘لبر ل ازم‘ کہتے ہیں۔اعتراض نعرے کے الفاظ پر نہیں‘اس تصورِ زندگی پر ہے جسے اس نعرے میں بیان کیا گیا ہے۔اہلِ مذہب کا اعتراض عورت کے حقوق پر نہیں‘اس تصورِ حیات پر ہے۔ ‘میرا جسم‘میری مرضی‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک آزاد عورت ہوں۔ میرے جسم پر صرف میری مرضی چلے گی۔کوئی مذہبی حکم‘کوئی تہذیبی قدر یاریاست کا کوئی قانون اس…

میں اس پارک میں پہلی بار نہیں آیا تھا لیکن آج سے پہلے اس تنوع پر کبھی اس طرح سے غور نہیں کیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ رنگا رنگی ہی ز ندگی کا اصل حسن ہے۔ اگر اس معاشرے میں مصلحین نہ ہوں جو لوگوں کو حیا جیسی اقدار کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو انسانی جذبات بے لگام ہو جائیں۔ اگر محبت کرنے والے نہ ہوں تو سماج لطیف احساسات سے خالی ہو جائے۔ کوئی شاعری ہو نہ موسیقی۔ اور اگر پیارے پیارے بچے اور ان کے پیچھے دوڑتی مائیں نہ ہوں تو انسان معصومیت کو کیسے مجسم دیکھے

ہمارے مقدر میں اور کتنے اجتماعی قتل لکھے ہیں‘صرف عالم کے پروردگار کو خبر ہے جو دلوں کے بھید جانتاہے۔سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ثابت نہ ہو سکا۔علما سے لے کر ریاست تک‘بظاہر سب نے تشویش کا اظہار کیا۔