Author: وجاہت مسعود
ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بدھ کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 2023ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 0.3 فیصد رہی جب کہ آئندہ برس پاکستان کی معیشت ممکنہ طور پر 1.9فیصد کی شرح سے ترقی کر سکے گی۔ مگر …اور اس مگر میں چھپے مگرمچھ پر خاص توجہ کی درخواست ہے… شرط یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو، منڈی پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو، موسمی حالات سازگار رہیں اور اشرافیہ کو ملنے والی 17.4ارب ڈالر کی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی مراعات پر نظرثانی کی جائے۔ معیشت اور سیاسی استحکام میں…
ہندوستان کا بٹوارہ جدید عالمی تاریخ کے بڑے واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد جو علاقے بھارت کے حصے میں آئے، 1941ء کی مردم شماری میں وہاں مسلمانوں کی تعداد چار کروڑ 24 لاکھ تھی جو کہ 1951ء میں تین کروڑ چون لاکھ رہ گئی۔ گویا ستر لاکھ مسلمان اپنی جنم بھومی سے رخصت ہوئے یا فسادات کی نذر ہو گئے۔ اس سے بڑا نقصان یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی مسلم آبادی اپنی سیاسی قیادت اور تمدنی قوت سے محروم ہو گئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی اور ڈاکٹر ذاکر حسین موجود تھے لیکن نوآزاد…
صحافت ایک شب زاد پیشہ ہے، اصطلاح کی حد تک ہی نہیں، لغوی طور پر بھی صحافت میں رات جاگتی ہے تو خبر کا سراغ لاتی ہے۔ کوئی اس وقت برہمن کی صباحت دیکھے / نکلے جب رات کا جاگا ہوا بت خانے سے۔ آپ تو جانتے ہیں، رات کے ہر روزگار میں خواب کا کچھ زیاں لازم ہے اور پھر ایک خاص نوع کی بیزار کن یکسانیت۔گزشتہ شب کے کیف و کم سے ایسا اغماض گویا ’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘۔ ساعت آئندہ سے ایسا التفات کہ؎ ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے‘۔ اس گھڑی دس…
دھوپ کا شیشہ گلی میں کندھے سے کندھا ملائے مکانوں کی دیواریں چڑھتا، چوباروں کی کھڑکیاں پھلانگتا اور آرزو بھری چھتوں کی کائی زدہ منڈیروں سے گزرتا بستی کے عقب میں اترچکا تھا۔ اب شام ہو رہی تھی۔ حیرت بھری آنکھوں والے ننھے بچے، اوڑھنی سے بے نیاز بچیاں اور قد نکالتے لڑکے بالے ایک ایک کر کے گھروں کو پلٹ رہے تھے۔ تماشا گر نے گرد آلود کھلونے سمیٹے۔ کچی مٹی کے پیروں پر رکھے چوبی چوکھٹے پر منڈھا کھلاڑی اٹھاتے ہوئے لحظہ بھر کو رکا، ایک نظر ڈالی اور کچھ سوچتے ہوئے اسے بھی تھیلے میں رکھ لیا۔…
مولوی محمد سعید کا نام اس ملک کے صحافیوں کے لئے مرشد باصفات اور گفتہ شیریں مقال کی تاثیر رکھتا ہے۔ ڈان اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جیسے اخبارات سے مدتوں وابستہ رہے۔ پاکستان ٹائمز کے مدیر کے منصب سے پیشہ ورانہ زندگی کا اختتام کیا۔ اس صحافی کی عظمت میں کیا کلام جسے خالد احمد جیسے نابغہ روزگار صاحب علم نے اپنا استاد تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کے برسوں میں مولوی صاحب کی صحافت اپنے نصف النہار پر تھی۔ بدقسمتی سے یہ وہی برس تھے جب پاکستان کی نوزائیدہ مملکت سیاست، معاشرت اور صحافت میں انتشار…
ہماری تاریخ کا ہر صفحہ گرد آلود اور ہر باب سیاہ پوش ہے۔ آج سات مارچ ہے۔ 45 برس قبل 7 مارچ 1977 کو کسی منتخب حکومت کی نگرانی میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ یہ انتخابی مشق اکتوبر 1976 میں آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل غلام جیلانی کی ایک خفیہ رپورٹ سے شروع ہوئی اور پہلا ووٹ ڈالے جانے سے کئی ہفتے قبل 19 جنوری 1977 کو عملی طور پر اپنے انجام کو پہنچ گئی جب لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کے انتخابی حریف مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر کے وزیر اعظم…
سلیم احمد حیات تھے تو اردو دنیا میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ شعر، تنقید اور سرکاری نشریات غرض کسی گھر بند نہیں تھے۔ اس پہ طرۂ یہ کہ فکری طور پر غالب ریاستی بیانیے کے دو ٹوک حامی تھے۔ فن اور اقتدار میں اساسی کشمکش پائی جاتی ہے۔ فن انسان کے ارتفاع کی جہد ہے اور اقتدار شرف انسانی پرجبر کی پاڑ لگانے کی صنعت ہے۔ اورنگ زیب مغل سلطنت کے عروج کا نشان نہیں، دارا شکوہ اور سرمد کاشانی کے خون ناحق سے مغل سلطنت کے زوال کا پیش لفظ ہے۔ فرخ سیر کا کہیں نشان نہیں اور…
قائد اعظم نے ہائبرڈ بندوبست نہیں، شفاف جمہوری پاکستان کا درس دیا تھا، قائد کے نصب العین کی طرف لوٹنے ہی میں قوم کی بھلائی ہے۔ دوسرا معاملہ معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ آج یہ سوچنا درست نہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے دو ہی حقیقی اثاثے ہیں۔ نوجوان آبادی کی بڑی تعداد اور ممکنہ طور پر پانچویں بڑی تجارتی منڈی۔
اگر واقعی پاکستان نے قومی سلامتی کو شہریوں کی معاشی بہتری سے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اتنی بڑی تبدیلی کے ممکنہ نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کیا ہم گزشتہ پون صدی میں قومی سلامتی کے مختلف بیانیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم وفاق کی اکائیوں کو ایک جیسا احترام اور حقوق دینے پر آمادہ ہیں۔ کیا ہم کھوکھلے نعروں کی بجائے پیداواری معیشت اور تجارت کو فیصلہ سازی میں ترجیحی کردار دینے پر تیار ہیں۔ کیا ہم امتیازی قوانین اور پالیسیاں ترک کر کے مساوی شہریت کا اصول ماننے پر تیار ہیں۔
وجاہت مسعود ان دنوں سویرا روشن ہوتا تھا اور رات میں نامعلوم کا جادو تھا۔ زندگی ایک دلچسپ اور بہت پھیلا ہوا کھیل تھا۔ یہ معلوم ہو چلا تھا کہ دنیا رنگ برنگی ہے لیکن من کو چنتا لگی تھی کہ آوازوں اور تصویروں کے اس بارونق میلے کا سارا تماشا آنکھ میں کیسے سمویا جا سکے گا۔ دس سے اوپر کون گنے؟ بالک پن کے ان دنوں میں کتاب کی کھڑکی کھل گئی۔ کتاب وہ سیربین تھی جس میں منظر اور احساس میں کوئی دیوار نہیں تھی۔ چاہو تو برف پوش میدانوں میں اسکیمو خانہ بدوشوں کے ٹنڈرا خیموں…