ایران کے روحانی پیشوا اور سپریم لیڈر علی خامنہ آئی نے پاسداران انقلاب ایران کے چیف کمانڈر محمد علی جعفری کو عہدے سے ہٹاکر ان کی جگہ جنرل حسین سلامی کو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ اس تبدیلی کو اہم پیش رفت سمجھاجارہا ہے۔
سرکاری اعلان کے مطابق یہ فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق کیا گیا ، وہ اپنی خدمات ثقافتی میدان میں اور ایران مخالفین کے خلاف حکمت عملی کے ساتھ پیش کرنے کے خواہش مند تھے۔اب انہیں آئی آر جی سی کی ذیلی تنظیم بقیۃ اللہ اعظم کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔اس دوران سپریم لیڈر علی خامنہ آئی نے نئے چیف کمانڈر کو یہ کہہ کر نیا مشن سونپا ہے کہ آپ آئی آر جی سی کی صلاحیتوں کو ہر میدان میں بڑھائیں اور اس کے اخلاقی پہلوؤں پر بھی بھرپور توجہ دیں یعنی تقوی ٰاور بصیرت پیدا کریں۔اس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ سابق چیف کمانڈر کو اخلاقی اسباب کے پیش نظر ہٹاگیا ، اگر محمدعلی جعفری نے اخلاقیات اور کلچرکے میدان میں موثر کردار ادا کیا تھا جو کہ دونوں کمانڈروں کے مشن میں شامل ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علی جعفری کو کیوں ہٹایا گیا اور حسین سلامی کی تقرری کیوں ہوئی؟
اس سوال کے جواب کےلیے ہمیں دو معاملات پر غور کرنا پڑے گا۔ اولاً نئے جنرل حسین سلامی کا فوجی پس منظر اورثانیاً آئی آر جی سی کو موجودہ حالات میں درپیش مسائل ۔جنرل سلامی اس سے قبل متعدد عہدوں پر فائز رہے ہیں، وہ نیوی بحریہ بیس کے آپریشن کمانڈر،ڈین آف کالج کمانڈ اینڈ اسٹاف، آر جی سی کے چیف آف ڈپٹی کمانڈر، کمانڈر فورسز بٹالین کے کمانڈر بھی رہے ہیں۔ان سارے عہدوں پر فائز رہنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل سلامی کی شخصیت ملٹی مشن رہنما کے طور پر پہچانی جاتی ہے، جس کی تصدیق سپریم لیڈر علی خامنہ آئی نے بھی کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل سلامی علی جعفری کے نائب تھےمگر آئی آر جی سی کے کسی نائب کےلیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس کا کمانڈر بن جائے۔
علی جعفری کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سپریم لیڈر علی خامنہ آئی نے یہ تاثر دیا ہے کہ اب بھی وہ آئی آر جی سی پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں ، کیونکہ یہ زبان زدعام تھا کہ آی آر جی سی اب اس قابل ہوگئی ہے کہ خامنہ آئی کے کام میں دخل اندازی کرسکے۔علی خامنہ آئی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی یہ طاقت رکھتے ہیں کہ آئی آر جی سی کی برانچوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں اور اس کے ساتھ انٹیلی جنس اداروں اور قدس فورس پر جسے قاسم سلیمانی لیڈ کررہے ہیں، نظر رکھیں۔آئی آر جی سی اب ایسا ادارہ بن گیا ہے جسے ایک جگہ سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔خامنہ آئی آئی آرجی سی کے معاملات خود کنٹرول کررہے ہیں، اس کی لیڈرشپ کو یکساں طاقت فراہم کی جارہی ہے، خامنہ آئی ابھی بھی اس تگ ودو میں ہیں کہ ایسے افراد اوپر لائے جائیں جو ان سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کریں،اس میں شک نہیں ہے کہ علی جعفری سپاہ پاسداران انقلاب ایران کے بارہ سال تک چیف رہے ،جس سے ان کا وسیع تجربہ ہواور وہ اپنی کمانڈ میں فورسز کو اچھے انداز سے کنٹرول کرتےرہے۔ پھر بھی علی خامنہ آئی کے فیصلے کی بنیاد ان کی تابعداری اور وفاداری پر مبنی تھا۔ یہ کسی بھی چیز سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔کچھ لوگ اسے ایک اور زاویہ سے دیکھ رہے ہیں ان کے مطابق علی جعفری جو اب 63 سال کے ہوچکے ہیں ان کی عمر اس عہدے سے ہٹانے کا سبب بنی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ علی جعفری کا سپریم لیڈر کے ساتھ سوچ وفکر کا اختلاف انہیں عہدے سے ہٹانے کا اہم سبب تھا۔ حسین سلامی جن کی عمر اب 60 سال ہے وہ سپریم لیڈر کی سوشل میڈیا پوسٹس ریٹویٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
دوسری طرف ان دنوں آئی آر جی سی مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے،حال ہی میں آر جی سی کو امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا ہے،اس اعلان سے آئی آر جی سی کے کمانڈرز کی نقل وحرکت محدود ہوجائے گی ،انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا جائے گا ،آئی آر جی سی اور اس سے منسلک افرادواداروں کےبینک اکاونٹ منجمد کردیے جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کمیونٹی اور آئی آر جی سی کے مابین تعلقات کو مجرمانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے گا ۔ اسی طرح آئی آر جی سی کے ملٹری ماہرین کا ٹریننگ کےلیے تبادلہ اور جوائنٹ ملٹری آپریشن بھی متاثر ہونگے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک نے آئی آر جی سی کمانڈرز کو ملٹری مشوروں کےلیے ویلکم کیا ہے اور انہیں سہولیات فراہم کی ہیں جس سے انٹرنیشنل برادری کی تنقید واضح ہوگی۔
کافی دن گزرنے کے باوجود ایران ابھی تک امریکا کے اس فیصلے کا بغور جائزہ لے رہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کیسے کرے گا،اسی لیے آئی آر جی سی نے اس فیصلے پر ابھی تک اپنا کوئی سنجیدہ ردعمل بھی نہیں دیا ہے۔
امریکی فیصلے کے علاوہ 21 اپریل 2019 کو دیے گئے حسن نصراللہ کےبیان کو اہمیت سے دیکھا جارہاہے، جس میں انہوں نے گرمیوں میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کا ذکر کیا، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے یہ بات بھی بعید ازقیاس نہیں کہ وہ مجھے قتل کروادے اور ہماری ٹاپ لیڈر شپ کو منظر سے ہٹادے،انہوں نے یہ پیشن گوئی اسرائیلی وزیراعظم بنیا مین نیتن یاہو کی شخصیت اور ان کے جنگی جنون کو مدنظر رکھتے ہوئے کی۔ البتہ حزب اللہ کے ذرائع نے اس بیان کی تردید کی ہے لیکن جنگ کے خطرات بدستور موجود ہیں۔یہ سب کچھ یقینی تھا کیونکہ اسرائیل شام میں ایرانی ٹھکانوں پر متعدد بار حملے کرچکا ہے اور ایران ان حملوں کے خلاف جوابی کاروائی کا ارادہ رکھتا ہے اگرچہ اسے روس کی مخالفت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
گروپ ذرائع نے نصراللہ کے بیان کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ لبنانی عوام کو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کےلیے تیار رہنا چاہیے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماحول اس وقت سازگار نہیں ہے۔
امریکا نےآئی آر جی سی کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بندی کرکے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے لاوے کو مزید ابھار دیا ہے،چاہے حسن نصراللہ نے یہ بیان دیا ہے یا نہیں، لیکن ایران کا خیال ہے کہ 2006 کے مقابلے میں اس مرتبہ اسےزیادہ فوجی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔اس بار اکیلے حزب اللہ کے ساتھ مقابلہ نہیں ہوگا۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ آئی سمجھتے ہیں کہ حسین سلامی اسرائیل سے فوجی تصادم کی صورت میں کسی بھی دوسرے لیڈر سے زیادہ موزوں ہونگے کیونکہ وہ اسرائیل کے خلاف سخت رویہ رکھنے کے حوالے سے پہچانےجاتے ہیں۔وہ اسرائیل کے ساتھ فوجی تنازعے کے خواہاں بھی ہیں۔ پچھلے سال جنوری میں سلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آئی آرجی سی کی اسٹریجی یہ ہے کہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے ختم کردے۔ہرمز کے کنارے سے ان کا یہ تبصرہ اسرائیلوں کےلیے واضح اور سخت پیغام تھا۔
حسین سلامی نے متعدد بار ایرانی تیل کی برآمدات روکنے کے سلسلے میں بارودی سرنگوں سے نمٹنے کے لیے بار بار دھمکی دی ہے، سلامی اب دھمکیوں سے آگے جاچکے ہیں۔وہ آئی آر جی سی کی کچھ خفیہ رپورٹس منظر عام پر لائے تھے، جن میں ذکر تھا کہ انہوں نے جولائی 2018 میں ہاؤٹی ملیشیاکو حکم دیا کہ ریڈ سمندر میں سعودی تیل ٹینکروں کو نشانہ بنائیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ سلامی کا یہ بیان ان کی مرضی سے شائع ہوا یا خفیہ طور پر ایسا کیاگیا لیکن جس نیوز سائٹ نے اسے نشر کیا اس نے تھوڑی دیر بعد اسے ہٹادیا۔
تاہم اس خبر کو جلدی سے ہٹانے کے باوجود اسے عالمی میڈیا نے اٹھالیا تھا،حسین سلامی کے غیر منطقی تبصرے اور فوجی تنازعات پر باربار بیانات ان کئی وجوہات میں سے ایک ہیں جوعلی جعفری کی جگہ سلامی کو چیف لگانے کا سبب بنے۔
بشکریہ: عالمی مرکز برائے مطالعہ ایران
ترجمہ: محمد عبداللہ
Related Posts
Add A Comment