بین الاقوامی ادارہ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز ( آئی آئی ایس ایس) کے مطابق ایران مشرقِ وسطیٰ میں اثر رسوخ بڑھانے کی سٹریٹیجک کوششوں میں اپنے حریف سعودی عرب پر برتری حاصل کر رہا ہے۔
خطے میں ایران کے حریفوں نے اربوں ڈالر مغربی دنیا خصوصاً برطانیہ سے اسلحہ خریدنے میں خرچ کیے ہیں۔ لیکن ایران نے اس سے کہیں کم پیسوں میں پابندیوں میں گھرے ہونے کے باوجود خطے میں روابط کے ذریعے سٹریٹیجک برتری حاصل کی ہے۔
ایران کا شام، لبنان، عراق اور یمن کے معاملات میں کافی اثر و رسوخ ہے بلکہ کچھ ممالک میں تو وہ براہِ راست مداخلت کرتا ہے۔
ایران نے سعودی عرب پر یہ برتری کیسے حاصل کی؟
ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں خفیہ انداز میں غیر ریاستی عناصر کے اتحاد کا نیٹ ورک جنھیں اکثر ’پراکسی ملیشیا‘ کہا جاتا ہے، بنایا ہوا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
لبنان میں حزب اللہ سے شروع کرتے ہوئے سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای کی ایران واپسی کے بعد سے ایران نے اپنے انقلابی نظریے کی درآمد کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بھی اپنی سرحدوں سے باہر پھیلایا ہے۔
لیکن آئی آئی ایس ایس کی ’ایران کے نیٹ ورک اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کا اثر و رسوخ‘ کے عنوان سے جاری کردہ 217 صفحوں کی رپورٹ میں ایران کے خطے میں آپریشنز اور رسائی کی ایسی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔
رپورٹ کے مطابق ’اسلامی جمہوریہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں مؤثر طاقت کا توازن اپنی طرف کر لیا ہے۔‘ اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ایران نے ایسا پُر اثر کارروائیوں اور تیسری پارٹی کے استعمال سے روایتی طور پر برتر طاقتوں کا مقابلہ کر کے حاصل کیا۔
اس حوالے سے اہم ترین کام پاسدارانِ انقلاب کے داخلی آپریشنز کے شعبے قدس فورس نے کیا ہے۔
قدس فورس اور اس کے لیڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کو براہ راست جواب دہ ہوتے ہیں جو ایران کے روایتی فوجی ڈھانچے سے مختلف ایک آزادانہ ادارہ بن گیا ہے۔
سنہ 2003 میں امریکہ کی جانب سے عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد قدس فورس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے آپریشنز میں تیزی لائی۔ ان آپریشنز میں تہران کے حمایت یافتہ غیر ریاستی عوامل کو ٹریننگ، وسائل اور اسلحے کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔
ایران نے اس حوالے سے غیر روایتی جنگی طریقے بھی اپنا لیے ہیں، جیسے ڈرون اور سائبر حملے۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے یہ دشمن کے بہتر روایتی اسلحے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
رواں برس اپریل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاسدارانِ انقلاب اور قدس فورس کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ امریکہ نے ایک ریاستی ادارے کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دیا۔
ایران نے ٹرمپ کے اس فیصلے کا جواب دیتے ہوئے خلیج میں تعینات امریکی فوج کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا جو ایک علامتی اقدام تھا۔
سنہ 2001 سے 2006 کے درمیان برطانوی وزیرِ خارجہ جیک سٹرا تھے جنھوں نے متعدد مرتبہ ایران کا دورہ بھی کیا اور ان کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کا کردار ایک ملٹری کمانڈر سے بڑھ کر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘قاسم سلیمانی اصل میں خطے میں اتحادیوں کے ذریعے (ایران کی) خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں۔’
لندن میں ایرانی سفارت خانے کے ترجمان نے آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اگر رپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے کردار کو خطے میں عزت دینی چاہیے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔
’ایران کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ایران نے اس کا مقابلہ کیا۔ ایران نے امریکہ کی جانب سے معاشی دہشتگردی کے نقصانات کو کنٹرول کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ تو ہاں، یہ ایک طاقتور ملک ہے جس کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط ہیں اور اس نے خطے میں تعاون کے حوالے سے بھی اقدامات کیے ہیں‘۔
حزب اللہ – ’ایک جونیئر پارٹنر‘
رپورٹ کے مطابق لبنان کے عسکریت پسند گروہ حزب اللہ نے، جو ایک سیاسی جماعت بھی ہے، ایران کے ساتھیوں میں ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔ اس رپورٹ میں ایران کے عراق اور شام میں سامان کی ترسیل کے راستوں کا تفصیلی ذکر ہے۔
حزب اللہ نے دونوں ممالک کے تنازعات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور شامی صدر بشار الاسد کی حمایتی فوج اور عراق کی شیعہ ملیشیا کی ساتھ مل کر جنگ لڑی ہے۔
اگرچہ اس رپورٹ میں حزب اللہ کو ‘پراکسی کی بجائے ایران کے جونیئر ساتھی’ کی حیثیت سے دکھایا گیا ہے تاہم یہ گروہ ایران کی حمایت یافتہ عرب ملیشیا اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک اہم پل کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔
عراق اور شام تک رسائی
امریکہ کی سربراہی میں عراق پر حملے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل دیا اور ایران کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا۔
اس سے قبل، خلیج میں سنی عرب عراق پر حاکمیت کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ پھیلنے سے رکا ہوا تھا۔
اس دفاعی فصیل کے خاتمے کے بعد ایران نے عراق میں اپنے مذہبی اور ثقافتی روابط کو مضبوط کیا جس سے اس کے عراق میں اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ عراق میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے۔
ایران نے ایک پیرا ملٹری فورس پاپولر موبلائزیشن یونٹس (پی ایم یو) کو اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جس کی مدد سے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو شکست دی گئی۔ تاہم اسے بہت سے لوگ عراقی ایرانی سامراج کی ایک قسم سمجھتے ہیں۔
لیکن سب کچھ ایسا نہیں ہوا جیسا کہ ایران چاہتا تھا۔ عراق میں بڑے پیمانے پر حالیہ مظاہروں اور تشدد کے واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کے نوجوان ایران کی حمایت یافتہ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’پی ایم یو کے قوم پرست رضاکاروں کے ایک گروہ سے نکل کر ملک پر حکومت کرنے والوں کا حصہ بننے سے اس کی عوامی حمایت میں کمی آئی ہے۔
جیک سٹرا کا خیال ہے کہ ایران نے عراق میں اپنی استطاعت سے زیادہ ذمہ داری لے لی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عراق میں جو ہو رہا ہے وہ ایرانیوں کے لیے اہم ہے کیونکہ انھیں وہاں اپنا کنٹرول ختم ہونے کا ڈر ہے۔‘
شامی حکومت ایک عرصے سے ایران کی اتحادی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران ایران کی فوج، حزب اللہ اور دوسرے شیعہ جنگجوؤں نے روس کی فضائی طاقت کے ساتھ صدر اسد کی حکومت کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور باغیوں سے فتح چھین لی ہے۔
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آج ایران دوبارہ مضبوط ہوتی ہوئی شامی حکومت اور غیر روایتی سکیورٹی ڈھانچوں میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے جس کے باعث اسرائیل کے لیے اس کی طرف سے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
خلیجی حریفوں کو پریشان کرنا
ایران کی خواہش ہو گی کہ امریکہ اس خطے سے نکل جائے اور ایران اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرتے ہوئے ایک بڑی فوجی طاقت کے طور پر ابھرے۔ لیکن سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔
جب سنہ 2011 میں عرب سپرنگ کے دوران مظاہروں کا آغاز ہوا تو ایران نے بحرین میں بدامنی کا فائدہ اٹھایا تھا۔ ایران نے ملک کی شعیہ اکثریتی آبادی کی جائز شکایات کا تو فائدہ اٹھایا لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شدت پسند گروہوں کو مسلح ہونے میں بھی مدد دی۔
رپورٹ کے مطابق ‘بحرین، سعودی عرب اور کویت میں عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایران کی حمایت بنیادی طور پر وہاں کی حکومتوں کو تنگ کرنے اور ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھی اور ان حکومتوں پر امریکہ کے ساتھ شراکت داری کی ایک سیاسی قیمت عائد کرنا تھا‘۔
آئی آئی ایس ایس کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کی جانب سے درپیش سکیورٹی کے خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم ستمبر کے مہینے میں ان گروہوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملوں نے ظاہر کیا ہے خلیجی ریاستیں ان بے ترتیب قسم کے حملوں سے کتنی غیر محفوظ ہیں۔
سعودی عرب نے امریکہ سے مہنگا میزائل دفاعی سسٹم خریدا ہے تاہم یہ سسٹم بھی اس نوعیت کے غیر روایتی ہلکی ٹیکنالوجی کے حملوں کو نہ روک پایا جس کی وجہ سے سعودی تیل کی پیداوار کم ہو کر تقریباً نصف رہ گئی۔
سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس کافی شواہد ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی تیل کی تنصیبات پر ستمبر میں ہونے حملوں میں ایرانی ساخت کے میزائل استعمال ہوئے جو سعودیہ کے شمال سے داغے گئے تھے۔‘ تاہم ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز نامی تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ ایران نے اس طرح کے گروہوں کی حمایت کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ ‘جب بات روایتی فوجی صلاحیتوں کی آتی ہے تو ایران کا سعودی عرب سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس (ایران) نے اپنے مفادات کی حفاظت اور خود کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے اس نوعیت کے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ جب بات فوجی جنگوں کو جیتنے کی آتی ہے تو سعودی عرب کے مقابلے میں ایران نے صحیح کھلاڑیوں کی پشت پناہی کی ہے‘۔
یمن
سنہ 2014 کے آخر میں جب یمن میں جنگ کا آغاز ہوا تو اس میں ایران کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم جب مارچ 2015 میں سعودی عرب نے حوثی باغیوں کو شکست دینے کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا تو اس وقت ایران نے حوثیوں کے لیے اپنی حمایت بڑھا دی۔
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق اس حمایت میں انھیں جدید ہتھیاروں کی فراہمی بھی شامل تھی جس کا مقصد ’اپنے حریف سعودی عرب کو زیادہ پیسے خرچ کیے بغیر اس جنگ میں مزید الجھانا اور باب المنداب کے سٹریٹیجک علاقے میں اپنی موجودگی کو بڑھاوا دینا تھا۔’
یمن کی جنگ نے یقیناً سعودی عرب کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ اس جنگ پر اربوں ڈالر کے اخراجات ہو چکے ہیں جبکہ یمن کی سرحد سے سعودی عرب پر 200 سے زیادہ میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برخلاف دہشت گرد تنظیموں جیسا کہ حزب اللہ اور حوثی باغیوں کو بلیسٹک میزائل فراہم کیے ہیں۔‘
تاہم سعودی اتحاد کی جانب سے یمن میں کیے گئے فضائی حملوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سعودی عرب کو پہنچنے والے نقصان کے سامنے بہت زیادہ ہے۔
اس تباہ کن جنگ میں کوئی بھی نہیں جیتا۔ لیکن سعودی عرب اور اس کے اتحادی متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ یمن جنگ میں ان کی سب سے بڑی کامیابی ایران کو وہاں مستقل طور پر قدم جمانے سے روکنا ہے۔
کم قیمت میں زیادہ فائدہ
اس رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ جب تک امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہیں ایران کا رویہ تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اور وہ (ایران) ’بیرونی قوتوں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ضائع نہیں کرے گا۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ برس ایران پر معاشی پابندیوں میں مزید اضافہ سخت گیر گروہوں کو مزید ہوا دے گا۔
ٹیکساس کے تھنک ٹینک سٹراٹفر کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی امریکی پابندیوں کے پیش نظر ایران اپنا سرکش ردعمل جاری رکھے گا۔ آئندہ چھ ہفتوں میں ایران کو مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور دیگر امریکی اتحادیوں کے خلاف حملے کرنے کے کئی ممکنہ مواقع میسر ہوں گے۔‘
حقیقت یہ ہے کہ ایران کے پاس اب اتحادیوں کا اتنا بڑا اور جغرافیائی طور پر وسیع نیٹ ورک موجود ہے کہ وہ جب چاہے اپنے آس پاس حملے کر سکتا ہے۔
ان حملوں میں میزائل اور ڈرون حملے، عراق میں امریکی فورسز پر گھات لگا کر حملے، آبنائے ہرمز میں سمندری ٹریفک میں خلل ڈالنا اور اسرائیل اور خلیجی ممالک پر جدید سائبر حملے ہو سکتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ 40 برسوں سے مسلسل اتحاد سازی، گروہوں کی مالی اعانت اور مسلح کرنے کے بعد ایران اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہے۔
یہ بات ضرور ہے کہ پابندیاں نقصان پہنچا رہی ہیں اور ایرانی عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور معاشی طور پر ایران ایک خوفناک جگہ بن گیا ہے۔ مگر پاسدارانِ انقلاب نے اپنے اتحادیوں کا ایسا نیٹ ورک قائم کیا ہے جو انتہائی کم قیمت پر زیادہ متاثر کن ہو سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں دی گئی تفصیلات کے مطابق ایران ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔