پچھلے سال نومبر میں ایران میں ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی تو اس نیت سے وہ دعوت قبول کی کہ اللہ نے چاہا تو امام رضا کو بھی سلام کریں گے اور امام غزالی سے بھی ہم کلام ہوں گے۔ کانفرنس تہران میں تھی اور مشہد وہاں سے تقریباً ہزار کلومیٹر دور لیکن پشتو مقولہ ہے کہ جنات کےلیے غزنی تک رسائی کیا مشکل ہے! چنانچہ کانفرنس کے اختتام پر ایک دن تہران میں مٹرگشتی کی اور پھر مشہد کےلیے پیکنگ کرلی۔ دوستوں نے روکا کہ اتنی دور جاکر پھر اگلے ہی دن واپسی کا یہ سارا سفر طے کرکے تہران آنا اور پھر اس کے بعد لاہور کی فلائیٹ ہے تو کیوں خود کو تھکا رہے ہیں؟ لیکن ہم نے کہا کہ بھئی، اتنے قریب آکر سلام کلام کے بغیر واپسی ہوئی تو بڑی محرومی ہوگی۔ چنانچہ ٹرین کے اوقات چیک کرکے وہ والی ٹرین بک کی جو تہران سے رات کو نکلتی اور مشہد تک فجر کے بعد پہنچتی۔ واپسی کےلیے پھر اسی طرح مشہد سے رات کی ٹرین بک کی تاکہ اگلے دن فجر کے بعد تہران پہنچ سکیں۔ یہ فیصلہ بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ اس طرح راستے کی طوالت کا احساس بھی کم ہوا۔ ٹرین میں فیملی کیبن بک کیا جس میں چار سیٹیں تھیں اور وہ مکمل الگ یونٹ تھا۔ اس لیے پرائیویسی بھی رہی اور سہولت بھی۔ یورپ میں کئی بار ٹرین کے سفر کا موقع ملا اور تہران سے مشہد تک ٹرین کا معیار ان کی ٹکر کا تھا۔ سٹاف بھی بہت مہذب اور مددگار۔ واش روم بھی صاف ستھرے۔ ڈائننگ کار میں انتظام بہترین۔ کھانا نہایت لذیذ۔ اور ٹکٹ کی قیمت بہت ہی مناسب۔ ٹرین کی ہدایات میں ایک بات یہ لکھی ہوئی تھی کہ نماز کےلیے پندرہ منٹ پہلے اطلاع دی جائے گی تاکہ آپ نماز کی تیاری کرسکیں اور پھر سٹیشن پر ٹرین پندرہ منٹ کےلیے رکے گی۔ کسی کو زبردستی نماز پر مجبور نہیں کیا گیا لیکن جب اتنی سہولت ہو تو نماز نہ پڑھنے کےلیے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ عشاء کی نماز تو ہم نے تہران میں ہی پڑھ لی تھی لیکن فجر کےلیے مشہد سے کچھ پہلے ٹرین رکی تو وہاں ادا کی۔ پھر تھوڑی دیر میں ٹرین مشہد پہنچی تو سورج طلوع ہورہا تھا۔
مشہد ہم تقریباً اسی وقت پہنچے تھے جس وقت چند دن پہلے ہم تہران پہنچے تھے، یعنی سورج طلوع ہونے کے وقت، لیکن دونوں شہروں کی فضا اور ماحول میں بہت زیادہ فرق تھا۔ تہران کی فضا میں بہت زیادہ آلودگی تھی۔ ٹریفک بہت زیادہ ۔ عجیب سی گھٹن تھی۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے ہُلَیل کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور ایک دفعہ اس نے الٹیاں بھی کی تھیں۔ مشہد کی فضا بہت صاف تھی۔ نرم ہوا چل رہی تھی۔ ٹریفک بہت کم۔ عجیب سی طمانیت۔ لوگوں کے مزاج میں فرق بھی نمایاں تھا۔ تہران میں اچھے، برے اور منزلہ بین المنزلتین ، تینوں نوعیت کے ٹیکسی ڈرائیور ملے تھے لیکن مشہد میں جتنی بار بھی ٹیکسی کرنی پڑی، ڈرائیور انتہائی خوش اخلاق اور مہمان نواز ثابت ہوئے۔ پھر تہران کی سڑکوں پر لوگ بالعموم اپنے آپ میں مگن نظر آئے، جیسے کسی کو کسی سے کوئی واسطہ نہ ہو، لیکن مشہد میں لوگ آپ کو بالکل یوں مسکرا کر دیکھتے تھے جیسے آپ کے آنے پر انھیں خوشی ہوئی ہو۔ جواب میں ظاہر ہے کہ ہم بھی مسکرا کر ہی سر ہلاتے یا سلام کرتے۔ یوں ہم امام رضا کی آرام گاہ تک پہنچ گئے۔

آرام گاہ سے باہر ایک بڑے احاطے میں سامان رکھنے کا انتظام تھا۔ آپ سامان دے کر ٹکٹ لے لیتے اور واپس آکر ٹکٹ دے کر سامان واپس لے لیتے اور اس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ سامان وہیں چھوڑ کر ہم آرام گاہ کی طرف بڑھے۔ خواتین اور مرد کو الگ الگ واک تھرو سے گزرنا تھا لیکن واک تھرو سے گزرنے کے بعد کوئی روک ٹوک نہیں تھی، نہ کوئی سوال و جواب، نہ کوئی کسی کی طرف متوجہ۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن۔ ایک عجیب طرح کا عالم تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوئی جارہی تھی لیکن اس کے باوجود سکون میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا تھا جیسے کوئی بہت ہی شفقت اور محبت سے اپنی طرف کھینچ رہا ہو اور آپ کھنچے چلے جاتے ہوں۔ مدینہ منورہ میں، مسجد نبوی میں، جیسی کیفیت ہوتی تھی، یہ کیفیت اس سے بہت زیادہ ملتی جلتی تھی۔ مسجد نبوی میں جب اللہ کی توفیق سے جانے کا موقع ملتا ہے تو میں مسجد میں داخل ہوکر تحیت المسجد پڑھ کر مسلسل درود و سلام پڑھتا جاتا ہوں لیکن سلام کےلیے جانے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ بس آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں ہوتا ہے ۔ پھر اچانک ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بہت ہی محبت سے، بہت ہی پیار سے، بہت ہی شفقت سے بلا رہا ہو اور اپنی آغوش میں لے رہا ہو۔ پھر قدم خود بخود اٹھ جاتے ہیں، رستے بھی خود بخود کھل جاتے ہیں اور سلام کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔ بس ایسی ہی کچھ کیفیت ادھر بھی تھی۔ شدت میں شاید اس سے کچھ کم لیکن نوعیت میں تقریباً یکساں۔
امام رضا کی آرام گاہ سے نکلے تو اب امام غزالی کی آرام گاہ تک جانے کا قصد کیا اور یہ مرحلہ نہایت دشوارگزار ثابت ہوا۔ اس مرحلے کو سر کرنے کےلیے سب سے مفید چیز جناب ڈاکٹر مظفر اقبال صاحب کی تحریر ثابت ہوئی جو انھوں نے چند سال قبل لکھی تھی اور اس میں بتایا تھا کہ انھوں نے امام غزالی کی آرام گاہ تک پہنچنے کا مرحلۂ شوق کیسے طے کیا تھا۔ اس تحریر میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ مشہد سے اگر امام غزالی کی آرام گاہ کا پوچھیں گے تو پہنچنا مشکل ہوگا لیکن آسان طریقہ یہ ہے کہ فردوسیؔ کا پوچھیں تو کوئی بھی ٹیکسی والا آپ کو فردوسیؔ کی آرام گاہ تک پہنچا دے گا جو امام غزالی کے پرانے شہر طوس کے قریب ہے۔ چنانچہ اس نسخے پر عمل کرتے ہوئے ہم نے ٹیکسی والے سے فردوسیؔ کا کہا اور اس نے فوراً مسکرا کر دروازہ کھول لیا۔ چالیس پنتالیس منٹ میں ہم اس بستی میں پہنچ گئے جہاں ہر سٹریٹ فردوسیؔ کے نام سے موسوم تھی: فردوسیؔ -1، فردوسیؔ – 2 وغیرہ۔ کہیں کہیں امام غزالی کے چھوٹے بھائی احمد الغزالی کی تصویر بھی نظر آئی لیکن نظر نہیں آیا تو وہ امام ابو حامد محمد الغزالی کا نام نظر نہیں آیا۔

بہرحال ہم فردوسیؔ کی آرام گاہ تک پہنچ گئے جو ایک بہت وسیع رقبے پر پھیلا ہوا کمپلیکس ہے۔ اس میں فردوسیؔ کے اشعار کی کیلی گرافی کے علاوہ فردوسیؔ کا مجسمہ بھی ہے اور ایک میوزیم بھی۔ خوبصورت باغ اس کے علاوہ۔ وہاں آپ کو رہبر خامنہ ای کا قول بھی مل جائے گا جس کی رو سے فردوسیؔ کی شاعری ایران کے ثقافتی ورثے کا بہت اہم حصہ ہے۔ کچھ دیر فردوسیؔ کے اس کمپلیکس میں گزار کر ہم اس کے پیچھے کی طرف گئے جہاں دیوار نہیں تھی اور پرانی کچی دیوار کے اثرات نظر آئے۔ میرا خیال تھا کہ یہ شاید وہی آثار قدیمہ ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر مظفر اقبال کی تحریر میں تھا۔ چنانچہ ہم بہت شوق سے اس ویران بستی کی طرف گئے۔ خیال تھا کہ شاید ہارونیہ کا پرانا مقبرہ یہیں ہے۔
اس کچی دیوار کے آگے بھی کچھ کچے پکے آثار تھے لیکن کوئی مقبرہ ، کوئی کتبہ، کوئی تحریر، کچھ بھی مزید نظر نہیں آیا۔ تھوڑا مزید آگے گئے تو پرانی گاڑیوں کا کباڑ خانہ سا نظر آیا۔ احساس ہوا کہ غلط سمت میں آگئے ہیں۔ ایک دو آدمیوں سے "آرام گاہِ امام غزالی” کا پوچھا لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ چنانچہ واپس فردوسیؔ کے کمپلیکس میں آگئے اور داخلی دروازے تک پہنچ کر وہاں مدد کےلیے دستیاب عملے سے رابطہ کرکے ان سے آرام گاہِ امام غزالی کا پوچھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے ایک نقشہ تھمایا اور اس پر اشارے سے راستہ سمجھایا۔ پھر فارسی میں وضاحت کی۔ میں سمجھ گیا لیکن اسے اطمینان نہیں ہوا۔ چنانچہ اس نے ایک وزیٹنگ کارڈ جو انگریزی جاننے والے ٹورسٹ گائیڈ کا تھا۔ اس نے کہا کہ اس سے فون پر رابطہ کریں، یہ آپ کو انگریزی میں سمجھا دے گا۔ میں نے اس گائیڈ سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ میں تو اس وقت بہت دور ہوں لیکن فون پر آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے بھی وہی کچھ کہا جو اس سے پہلے کاؤنٹر والے شخص نے کہا تھا۔ شکریہ ادا کرکے ہم باہر نکلے اور دائیں طرف مڑ کر بستی میں داخل ہوئے۔ پہلی نشانی ہمیں یہ بتائی گئی تھی کہ "خیابانِ امام رضا” میں داخل ہوں اور اس کے اختتام تک چلتے جائیں۔ تقریباً دو فرلانگ تک چلنے کے بعد بھی جب "خیابانِ امام رضا” کا بورڈ نظر نہیں آیا، تو پھر راستے میں ایک دکان دار سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ وہ تو آپ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ چنانچہ اس کے اشارے پر اعتماد کرتے ہوئے ہم نے واپسی کا راستہ اختیار کیا اور اب ہم آرام گاہِ امام غزالی کے بجاے خیابانِ امام رضا کا پوچھنے لگے۔ چنانچہ اس دفعہ ہمیں اس خیابان تک تو رسائی ہوگئی لیکن خیابان بس ایک کشادہ گلی تھی۔ ہاں، یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس چھوٹے سے شہر طوس میں گلی کوچے نہایت صاف ستھرے تھے۔ تو بس ہم اس خیابان میں چلتے رہے یہاں تک کہ تقریباً ایک کلومیٹر بعد ہم ایک ویران سے میدان میں پہنچ گئے ۔ آگے کچھ نہیں تھا۔ یہ کیا ہوا؟ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ اس خیابان کے اختتام پر پہنچیں گے تو آگے بس امام غزالی کی آرام گاہ ہے لیکن یہاں تو چند ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ چٹیل میدان۔ کوئی دو سو گز آگے ایک چھوٹی سی سڑک اس میدان کے درمیان میں سے گزری تھی۔ سڑک کے پار بھی کچھ نہیں تھا۔ دھوپ بہت تیز ہوگئی تھی۔ پیاس سے برا حال تھا۔ ہُلَیل بھی چلتے چلتے تھک گیا تھا بے چارہ تو اسے کندھوں پر سوار کیا لیکن اب امام غزالی کی آرام گاہ کی جستجو آگے لیے جارہی تھی۔ اب جب کچھ بھی نظر نہیں آیا تو طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ ایسے میں ہُلَیل کی شرارت بھری مسکراہٹ نے حوصلہ دیا۔

ایک دفعہ پھر اس انگریزی بولنے والے گائیڈ سے رابطہ کیا۔ اس نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ آپ صحیح جگہ پہنچ گئے ہیں! میں نے کہا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے، سواے ایک چٹیل میدان کے۔ اس نے کہا کہ اگر آپ کا خیال ہے کہ وہاں فردوسیؔ کی طرح کوئی بڑا کمپلیکس ہوگا تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ بس ایک چبوترہ سا ہے، ٹین کی چھت ہے اور ارد گرد چھوٹی سی باڑ، اور بس۔ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر میں نے کہا لیکن وہ چبوترہ اور وہ ٹین کی چھت ہیں کہاں؟ اس نے پوچھا کہ کیا آپ کو کچھ ٹیلے سے نظر آتے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ بس ان ٹیلوں کو کراس کر آگے جائیں۔ میں نے کہا کہ آگے ایک چھوٹی سی سڑک ہے۔ اس نے کہا کہ آپ ٹیلوں کو کراس کریں گے تو سڑک کے پار آپ کو چبوترہ نظر آجائے گا؛ وہی امام غزالی کی آرام گاہ ہے ! میں نے شکریہ ادا کیا اور بوجھل قدموں سے آگے روانہ ہوا۔
دھوپ اب بہت بری لگ رہی تھی۔ ہوا بھی بہت گرم ہوگئی تھی۔ امام غزالی کی ایسی ناقدری کا سوچ کر دل میں ایک عجیب سا طوفان برپا تھا۔ گھسٹتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ ٹیلوں سے آگے گئے تو اچانک ہی سڑک کے پار چبوترہ نظر آیا اور مجھے یاد آگیا کہ اس کی تصویر ڈاکٹر مظفر اقبال صاحب کی تحریر کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھی۔ بس اچانک ہی قدم خود بخود تیز ہوگئے۔ قرآن کریم کی آیات کی تلاوت زبان پر جاری ہوگئی اور امام غزالی کی آرام گاہ کے قرب کے خیال سے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اب نہ ارد گرد کی ویرانی کا کچھ خیال باقی رہا، نہ ہی دھوپ کی شدت کا کوئی احساس۔ بس امام غزالی کی آرام گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر السلام علیکم یا اھل القبور کہنے ، فاتحہ پڑھنے، دعا کرنے اور کچھ دل کی بات کہنے کے سوا کوئی اور خیال باقی ہی نہیں رہا۔
بہت دیر تک امام کی آرام گاہ کے پاس رہے۔ دل بہت بے قرار رہا۔ اداسی کی ایک لہر دل پر چھاگئی تھی جو چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آنسو تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے۔ امتِ مسلمہ کی ایسی نابغہ شخصیت کے متعلق ایسی بے حسی اور ناقدری ! یہ خیال بہت تکلیف دہ تھا کہ اہلِ سیاست کی نظر میں امام غزالی کو فردوسیؔ جیسی اہمیت بھی حاصل نہیں ہے! دکھ اتنا شدید کہ بیان سے باہر ہے۔

ایسے میں اچانک خیال آیا کہ میرے استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب نے مجھے خصوصی طور پر ہدایت کی تھی کہ امام غزالی کی آرام گاہ پر پہنچ کر ان کی جانب سے سلام پہنچاؤں۔ یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست ڈاکٹر سعید سوسِچ نے (جن کا تعلق بوسنیا سے ہے اور ہمارے شعبۂ قانون میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں) مجھے صبح امام غزالی کی المستصفی وھاٹس ایپ کی ہے۔ چنانچہ فوراً موبائل کھول کر المستصفی کا مقدمہ بہ آوازِ بلند پڑھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا جیسے مجھے زمان و مکان کی قید سے آزادی مل گئی ہے؛ جیسے میں امام غزالی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے ان کی کتاب ان کے سامنے پڑھ رہا ہوں اور وہ سن رہے ہیں؛ جیسے عبارت پڑھتے ہوئے مجھ سے غلطی ہوئی اور انھوں نے مسکرا کر تصحیح کردی۔ پھر یاد نہیں کہ آگے کیا ہوا لیکن جب ہوش آیا تو میں مقدمہ پورا پڑھ چکا تھا اور دل پر سکون اور اطمینان کی کیفیت طاری ہوچکی تھی۔ معلوم ہوگیا کہ امام غزالی کی آرام گاہ کی قدر بے شک کوئی حکومت نہ کرے لیکن تاقیامت امام غزالی کا کام اس امت کی رہنمائی کرتا رہے گا اور انھیں اس کا اجرعظیم ملتا رہے گا، ان شاء اللہ ۔ یہ دیکھیے کہ مجھ جیسا گنہگار انسان امام غزالی کی وفات سے نو سو سال بعد ان کی قبر پر ان کی کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر یہ اعتراف کررہا ہے کہ ہم ان پر ان کا بہت بڑا احسان ہے، اتنا بڑا کہ اس کا حق ہم کبھی ادا نہیں کرسکیں گے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
