وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب اور او آئی سی کے بارے میں داغے گئے بیانات کے بعد ایک نہ تھمنے والے سفارتی طوفان کی بازگشت پاکستان اورسعودی عرب کے باہمی تعلقات کی دیرپا اور پرشکوہ عمارت کی دہلیز پر مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ وزیر خارجہ کے بیان کے فورا بعد ہی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر تسلسل سے ایسے تبصرے چل رہے ہیں کہ پاکستان نے حتمی طور پر سعودی عرب کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا ہے اور چین ، ایران ، قطر وغیرہ پر مشتمل ایک نئے بلاک کی تشکیل میں پاکستان کا کردار اہم ہونے جا رہا ہے۔ ابتدا میں کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ حسب سابق چند دنوں بعد وزیر خارجہ اس بیان کے بارے میں وضاحت کردیں گے کہ ان کا منشا کچھ اور تھا اور معاملات سنبھل جائیں گے۔ مگر پھر سوشل میڈیا پر سرگرم مخصوص اکاؤنٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب تصور کئے جانے والے ٹی وی اینکرز اور مبصرین نے جب کھل کر سعودی عرب کے کردار اور پاکستان سے وابستہ ان کی توقعات و اشکالات پر سوالیہ نشانات اٹھانے شروع کر دیے تو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس بار یہ سلسلہ زیادہ سنجیدہ ہوچکا ہے۔ اسلام آباد کے سفارتی حلقوں کو دونوں ممالک میں پائی جانے والی سرد مہری کا بخوبی اندازہ تو تھا ہی مگر شائد وہ یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کے ذریعے ایک سخت اور عوامی نوعیت کا پیغام ریاض کو دیا جائے گا۔
اسلام آباد نے ظاہر ہے اس قدم کو اٹھانے سے قبل اپنے آپشنز پر غور کیا ہوگا اور یقینا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے لا ابالی مزاج پر ہی اکتفا نہیں گیا ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مزاج کی مطابقت اردگان اور مہاتیر محمد سے بدیہی طور پر واضح ہے۔ ان حالات میں اگر واقعات کا اونٹ اس کروٹ بیٹھتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے کچھ فاصلہ پیدا کر کے ترکی و ایران کے قریب جا رہا ہے تو اس سے وزیر اعظم اور ان کی سیاسی ٹیم کو وقتی طور پر ذہنی راحت اور سکون میسر آسکتا ہے۔ مگر اسلام آباد میں موجود حقیقی پالیسی سازوں نے یقینا یہ معاملات وزیر اعظم کی ذہنی اپچ اور سیاسی ذوق پر نہیں چھوڑے ہوں گے۔ پاک سعودی تعلقات کی تزویراتی نوعیت کے اصل اسٹیک ہولڈرز پاکستان کی حد تک افواج پاکستان ہی ہیں۔ ان تزویراتی تعلقات کی اصل اور مکمل نوعیت آج تک قوم کے سامنے نہیں آسکی اور عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اتنی حساس پارٹنرشپ کو عوامی بحث و مباحثے سے دور رکھنا ہی صائب اور درست عمل ہوگا۔ اب یہ ماننا تو ناممکن ہے کہ شاہ محمود قریشی کا بیان اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منظوری کے بغیر جاری ہوا تھا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے تئیں کیلکولیٹڈ رسک لیتے ہوئے ہی یہ قدم اٹھایا ہے۔ ریاض میں جاری طاقت و اقتدار کی رسہ کشی کی خبروں کی اصل حقیقت سے اسلام آباد کے پالیسی ساز حلقے بخوبی واقف ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان داخلی محاذ پر جس چیلنج سے نبردآزما ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام آباد اپنے آپشنز کو غالبا از سر نو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات بھی سر پر ہیں اور ٹرمپ کے ہارنے کی صورت میں مشرق وسطی کے افق پر ایک بار پھر اوبامہ کی پالیسی چھا جانے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ محمد بن سلمان کے لیے اس سے بڑا درد سر اور خوفناک خواب کیا ہوسکتا ہے کہ عرب سپرنگ سیزن ٹو اپنے پورے جوبن کے ساتھ مشرق وسطی میں واپس آجائے اور ترکی و اخوانی اتحاد امریکی پالیسی کے سب سے بڑے ہمنوا بن کر خطے میں اپنے دیرینہ عزائم کے حصول کا ڈول ڈال دیں۔ اسلام آباد یقینا ان تمام ممکنات سے بخوبی واقف ہے اور محمد بن سلمان کے ساتھ مزید چلنے کے دو ہی ممکنہ آپشنز اس وقت اسلام آباد کے سامنے ہیں۔ اول تو یہ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کی جاری سطح کو نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ اقتدار و طاقت کی موجودہ کشمکش میں اپنا وزن محمد بن سلمان کے پلڑے میں ہی رکھا جائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے اسلام آباد ایک نئی ڈیل کرنے کا خواہشمند ہے۔ محمد بن سلمان کے لیے مکمل اور دیرپا اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں اگر اسلام آباد کا کوئی ممکنہ کردار ہوسکتا ہے تو اسلام آباد اس کردار کے لیے نئی شرائط طے کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوگا۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنی بات منوانے کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کرنے کو جائز سمجھا جاتا ہے اور یہی کچھ اسلام آباد اس وقت ریاض کے ساتھ کر رہا ہے۔ اسلام آباد کے سامنے دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی کو پوسٹ محمد بن سلمان تناظر میں تشکیل دے۔ یہ کہنے کو ایک مشکل بات ہے مگر سیاسی حقائق کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار کی جیت سے پوری بازی پلٹ سکتی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل سے جو چنگاری سلگی تھی وہ موافق حالات کے دستیاب ہوتے ہی ایک شعلے کی شکل میں سعودی شاہی خاندان کا احاطہ کرسکتی ہے۔ ایسے میں محمد بن سلمان کے اقتدار کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اقتدار کی جاری اندرونی رسہ کشی کو بیرونی عوامل کی مدد سے کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی کوششیں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں۔ اسلام آباد اس سارے منظر نامے سے بھی یقینا واقف ہے اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا جس سے ممکنہ ڈیموکریٹک امریکی صدر اور ان کی ٹیم کی نظر میں اسلام آباد کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد نے موجودہ عالمی حالات اور خطے میں وقوع پذیر ہونے والی ممکمہ تبدیلیوں کے پیش نظر محمد بن سلمان کیمپ سے محفوظ فاصلہ اختیار کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔
دوسری طرف ریاض بھی اپنے پتے بہت تیزی اور چابکدستی سے کھیل رہا ہے۔ اسلام آباد کی ضرورت ریاض کو بنیادی طور پر دو وجوہات سے پیش آتی رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ ریاض کی دفاعی ضروریات ہمیشہ سے اسلام آباد پوری کرتا رہا ہے اور اس سلسلے میں ریاض اور اسلام آباد کے درمیان انتہائی گہرے تزویراتی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستانی افواج تربیت اور دیگر آپریشنز کے لیے ہمیشہ سے سعودی عرب میں مقیم رہتی ہیں اور خیلج میں جب بھی ٹینشن کا ماحول پیدا ہو اور سعودی مفادات کو خطرات لاحق ہوں تو ریاض کے لیے اسلام آباد دفاع اور مدد کے لیے سب سے قابل عمل آپشن کے طور پر موجود رہا ہے۔ دوسری وجہ بنیادی طور پر ریاض اور واشنگٹن سے جڑی ہوئی ہے کہ امریکہ کے حلیف کے طور پر پاکستان سے وابستہ کئی معاملات براستہ ریاض طے کیے جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کی لیڈرشپ کے سعودی کردار کو بھی ریاض اسلام آباد کی مدد اور تعاون ہی سے پروان چڑھاتا ہے۔
ریاض نے متحدہ عرب امارات اور خطے کے دیگر ممالک سے مل کر اسرائیل کے ساتھ جو حالیہ ڈیل کی ہے اس کے مضمرات بہت دیرپا اور اسلام آباد کے لیے پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ یوں تو اسرائیل سے تعلقات کی نارملائیزیشن کوئی انہونی بات نہیں ہونی چاہیئے کہ ترکی، مصر، اردن اور قطر وغیرہ نے یہ کام بہت عرصے پہلے سے کر رکھا ہے مگر متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ترکی کی طرف سے شدید تنقید دیکھنے میں آرہی ہے۔ عوامی سطح پر اگر خلیجی ممالک اس تنقید اور ردعمل کو مینج کرلیتے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوسکتی ہے۔ ریاض اور اس کے قریبی اتحادی ممالک نے یہ چال چل کر دو کام کیے ہیں۔ ایک تو اس سے امریکہ میں ٹرمپ کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے جو اس وقت ان ممالک کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر ٹرمپ یہ الیکشن ہار بھی جاتا ہے تو امریکہ میں موجود یہودی لابی کسی بھی ڈیموکریٹک صدر کو اوبامہ کی مشرق وسطی پالیسی کی طرف واپس جانے سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کرسکتی ہے۔ ریاض اور اتحادی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی چینل کو کھول کر اپنے لیے پالیسی آپشنز کو وسیع تر کر لیا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اسرائیل اور اس کی امریکی لابی عملی طور پر محمد بن سلمان کے ساتھ مستقبل میں کیا کریں گے مگر آج کے حالات میں ریاض نے اپنے لیے ایک راستہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
اگر اسرائیل اور عربوں کے معاملات اسی سمت میں آگے بڑھتے ہیں تو اسلام آباد کے لیے ریاض کو مزید لبھانا اور خود کو پرکشش آپشن کے طور پر قائم رکھنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو بالواسطہ طور پر اسرائیل متحدہ عرب امارات کے ذریعے پورا کرنے کی آفر کرسکتا ہے۔ سعودی فوجیوں کی تربیت اور اسلحے کی ضروریات کے لیے اگر تل ابیب سہارا بن جائے تو ریاض کو اسلام آباد کے نخرے اٹھانے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سارے میں بہت سارے مذہبی و ثقافتی عوامل رکاوٹ بنیں گے اور ان کو عبور کر کے ہی ریاض اس سمت کوئی قدم اٹھا سکے گا۔ ریاض اور تل ابیب کی ایران پالیسی بھی بظاہر یکساں ہے اور اس بارے میں بھی ریاض کو اسلام آباد کی گومگو ایران پالیسی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
خبروں کے مطابق جرنل باجوہ نے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ ریاض کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں باہم مشاورت سے ہی کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد کو ریاض اور تل ابیب کی قربتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسلام آباد کے لیے اب یہ چیلنج ہے کہ وہ کس طرح مشرق وسطی کی حکومتوں کے لیے خود کو ناگزیر بنائے رکھے۔ اگر اسلام آباد کے موجودہ کردار کو اسرائیل کسی بھی طرح کم کر پاتا ہے تو یہ اسلام آباد کے لیے تجارتی، دفاعی اور معاشی سطحوں پر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل کے آن بورڈ آنے سے اس خطے میں ہندوستانی اثرونفوذ پہلے سے زیادہ پھیلے گا اور اسلام آباد مزید سفارتی تنہائی کا شکار ہوجائے گا۔ یہ توقع رکھنا کہ چین اور ترکی پر مشتمل نیا ممکنہ بلاک پاکستان کو اس سفارتی تنہائی سے بچا پائے گا، عبث ہوگا کیونکہ ترکی اور چین دونوں ہی اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد کو اس وقت وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی جذباتی اور کھوکھلی خارجہ پالیسی کا اسیر بننے سے بچانا ہوگا۔ ہماری ہیئت مقتدرہ کے اصل کرداروں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ریاض کے ساتھ اگر تعلقات مزید بگڑ گئے تو اس سے اسرائیلی و ہندوستانی اثرونفوذ خطے میں اتنی تیزی سے بڑھے گا جسے بعد از خرابی روکنے کی کوشش کرنا بے سود ہوگا۔ اگر اسلام آباد کی سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق ریاض میں معاملات نہیں آگے بڑھتے اور محمد بن سلمان ہی مستقبل کے لیڈر کے طور پر سامنے آتے ہیں تو اسلام آباد کو دوسرے پالیسی آپشنز کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سارے عمل میں پا کستان کے ان لاکھوں غیر/نیم تربیت یافتہ ورکرز اور کی فیملیز کے مفادات کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جو خلیج کے ممالک میں محنت مزدوری کر کے نہ صرف اپنا پیٹ پالتے ہیں بلکہ ملک میں سب سے زیادہ زرمبادلہ بھی بھیجتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کی ایڈجسٹمنٹ اور نئے بلاک میں شامل ہونے کی خواہش کے نام پر کہیں ہم اپنے ہی جسد قومی پر خودکش حملہ نہ کر بیٹھیں۔