عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی بھی سن لیجیئے کہ کم آمدن والے ممالک کرونا ویکسینیشن کے مطلوبہ ہدف کو ابھی تک حاصل نہیں کر سکے ہیں چنانچہ اضافی بوسٹر خوراک پر عمومی پابندی اس سال کے آخر تک جاری رہنی چاہیئے۔ عالمی ادارہ صحت یہ چاہتا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک تمام ممالک کم از کم دس فیصد آبادی کو کرونا ویکسین لگائیں اور یہ شرح سال کے آخر تک چالیس فیصد تک ہونی چاہیئے۔ اگلے سال کے وسط تک عالمی ادارہ صحت اس شرح کو ستر فیصد تک لیے جانے کا خواہشمند ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نوے فیصد زیادہ آمدن والے ممالک دس فیصد شرح کا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے ستر فیصد ممالک تو اپنی آبادی کے چالیس فیصد حصے کو ویکسین لگا چکے ہیں۔ اس کے برعکس کم آمدن والے ممالک ابھی تک ان میں سے ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ ویکسین کی اضافی یا بوسٹر خوراک کے نام پر امیر ممالک میں ویکسین کے عمومی استعمال کے بارے میں عالمی ادارہ صحت اس سال کے آخر تک پابندی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ویکسین کی اضافی خوراکیں کم آمدن والے ممالک کو فراہم کی جائیں تاکہ وہ ویکسینیشن کے مطلوبہ اہداف کو سہولت سے پورا کر سکیں۔ ویکسین کی تمام ممالک کو یکساں شرائط پر سہولت سے دستیابی اس وقت ایک گھمبیر چیلینج بن چکا ہے۔ امیر ممالک نے وسائل کے زور پر بڑے آرڈرز دے کر ویکسین کو بک کروا رکھا ہے اور غریب ممالک تک ویکسین کا بروقت پہنچ کر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک گذشتہ کالم میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ویکسین کی کروڑوں کی تعداد میں اضافی خوراکیں آئندہ سال تک امیر ممالک میں پڑی پڑی ضائع ہو جائیں گی۔ ایک طرف ویکسین ایلیٹ ازم کا یہ بدنما دھندہ جاری ہے تو دوسری طرف ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفیکیٹ کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔
پاکستان میں بغیر ویکسین کروائے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے کئی واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ غور فرما لیں کہ ہم کس طرح دس فیصد اور چالیس فیصد کے اہداف کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! بعض گروپس میں اب تو یہ فتوے بھی طلب کئے جا رہے ہیں کہ ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفیکیٹ کے حصول کا شرعی حکم کیا ہوگا!