نائن الیون کے بعد دنیا نے افغانستان میں طالبان حکومت کو افغانستان پر حملہ کرکے غیرمستحکم کردیا۔بیس سالہ خانہ جنگی کے بعد بالآخر امریکہ کی سربراہی میں نیٹوافواج افغانستان سے جاچکی ہیں اور طالبان ایک بار پھر برسرِ اقتدار ہیں ۔ دنیا کی پوری عسکری طاقت طالبان کو کمزور کر پائی نہ ہی شکست دے سکی ۔ یہ واقعہ کئی حوالوں سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ بیس سال کے دوران خطےمیں ہونے والی تبدیلیاں اور ان کے نتائج کیا منظر دکھاتے ہیں ۔ طالبان اقتدار کس طرح سے اپنے معاملات کو آگے بڑھاتا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گےیہ سب کچھ ابھی مبہم سا ہے۔ عسکری میدان میں اپنی استقامت دکھانے کا ثمر ہونے کے ساتھ ساتھ طالبان اقتدار دوحہ مذاکرات کا نتیجہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان جو ایک سخت گیر مذہبی تشریح کے قائل ہیں بہت سے معاملات میں لچک کامظاہرہ کررہے ہیں۔ ۹۰ ءکی دہائی میں جن ممالک کے ساتھ طالبان کی چپقلش رہی وہ ممالک آج طالبان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ جن معاملات پر طالبان کامؤقف ٖغیر متزلزل تھاان پر آج وہ اپنا بہتر تصور دکھانے کے لیے مصلحت اختیارکیے نظر آتے ہیں۔
دنیا آج طالبان کے ساتھ اُن کی شرائط پر چلنے کو تیار نظرآتی ہے کہ بہ ہر حال یہ ایک طاقت بن چکے ہیں ۔ اشرف غنی، امراللہ صالح اور حامدکرزئی طالبان کے خلاف مزاحمت نہ کرپائے۔ایسے میں کئی اہم ممالک کے پاس طالبان کامتبادل کوئی نہیں ، سو آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے کہ طالبان حکومت کو عالمی سطح پرتسلیم کرلیا جائے گا۔طالبان حکومت بھی اس حوالے سے پُرامید نظر آتی ہے اور اسی لیے ہی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔ طالبان دوحہ مذاکرات میں طے شدہ امور کو مدِ نظررکھتے ہیں اور خطے کے ممالک کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ افغان سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی تو سبھی ممالک ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
مغرب ومشرق کی سیاسی کشمکش میں امریکہ روس اور چین کاکردار بہت واضح ہے ۔امریکہ کی دشمنی میں چین یا روس طالبان کی ایسی حکومت کے ساتھ تعاون پر بہ ہر حال تیار نہ ہوں گے جو عالمی سطح پر بدنام ہویا جس کو تسلیم کرنے سے ان ممالک کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑےیہی صورت حال پاکستان کی ہے۔پاکستان کا مذہبی طبقہ مگر اس سلسلے میں بہت جلد بازی اور صراحت کاشکار نظر آتا ہے ۔ریاست نے ابھی تک کوئی واضح نقطہ نظر پیش نہیں کیامگرعوامی اجتماعات میں مذہبی قیادت طالبان کو نہ صرف تسلیم کررہی ہے بلکہ عوام میں ان کے حق میں رائے عامہ ہم وار کرنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کررہی ہے۔چند ایک کو چھوڑ کر یہ وہی مذہبی قیادت ہے جس نے پچھلے بیس سال میں طالبان سے اپنا تعلق چھپایابھی اور کئی معاملات میں مخالفت بھی کی۔ریاستی جبر یا طاقت کے مراکز سے مفاہمت کرکے طالبان کے نام کو ممنوع قرار دیے رکھا۔اپنے اداروں میں ایسے لوگوں کو پڑھنے پڑھانے دینے سے احتراز برتا یااگر کوئی ایسے لوگ موجود تھے بھی تو ریاستی قوانین کے تحت اداروں کو ان تک رسائی دی اور ان لوگوں کو ریاستی نگرانی میں رکھا گیا۔فورتھ شیڈول جیسے قوانین کی زد میں اب بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں۔
وفاق المدارس کے ناظمِ اعلیٰ قاری حنیف جالندھری صاحب گزشتہ دنوں جامعہ اشرفیہ لاہور میں مذہبی قیادت کی موجودگی میں روایتی جوش وخروش سے طالبان کے کارناموں پر تبصرہ کرتے رہے اور یہ اعلان بھی کیا کہ وفاق المدارس کی قیادت نے طالبان قیادت سے ملاقات کرکے افغان مدارس کے طلبہ کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم یہ خدمت کرکے سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔بیان کے دوران طالبان کے حق میں نعرے بازی ہوئی اور بعد از بیان مفتی تقی عثمانی صاحب نے جالندھری صاحب کو تھپکی بھی دی۔ یہ منظرطلبہ میں مزید جذبے اورولولے کا باعث بنا۔ہم ایک حبس زدہ ماحول میں بیس سال گزار کر آرہے ہیں جہاں مذہبی لوگوں اور مدارس کے ذمہ داران کو فورتھ شیڈول جیسے ہتھ کنڈوں سے مجبور کردیا گیا۔ان کی نقل وحرکت کی باقاعدہ نگرانی کی، خوشی وغمی میں شرکت کے لیے تھانوں سے اجازت، گھر کےافراد کے ساتھ ساتھ اعزہ کی بنیادی معلومات تک اداروں کی رسائی ہے۔ بے جا تنگ کرنے اور مخصوص مواقع پر چادر وچاردیواری کا تقدس پامال ہونے کی اذیت سے بہ مشکل نکل ہی رہے ہیں کہ ایک بار پھر مذہبی طبقے کو ان کی قیادت نئی مشکلات میں ڈالنے کے لیے لاشعوری طور پر استعمال ہورہی ہے۔
طالبان سے محبت اور امریکہ سے دشمنی بجا، مذہبی ونظریاتی وابستگی بھی سر آنکھوں پر! مگر حضور یہ بھی مان لیجیے کہ آپ کی پرواز تب ہی ہے جب ریاست آپ کو کچھ ایندھن فراہم کرتی ہے۔ ریاست ابھی تک کوئی واضح مؤقف نہیں دے پائی،بالخصوص طالبان حکومت کے عہدیداران کے اعلان کے بعد مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں ۔ ایسے لوگوں کی اہم عہدوں پر موجودگی جو اقوام متحدہ کی نگاہ میں گناہ گار ہیں ، طاقت ور ممالک کو بھی مشکل میں ڈال گئی ہے اور پاکستان تو پھر کمزور ممالک میں سے ہے. کل اگر حالات بدلتے ہیں تو ہوسکتا ہے مذہبی قیادت اپنے جاہ وجلال کے سبب بخش دی جائے مگر مذہبی کارکن کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔
کچھ ذرا صبر کرلیجیے، تحمل سے کام لیجیے،آپ کا جوشِ خطابت آپ کی عزت تو بڑھاجاتا ہے مگر نعرے لگانے والوں کی مشکلیں بھی دوگنی کرجاتا ہے۔!