خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال کی بحث مولانا مودودی ؒ کی کتاب کے بعد ہمارے ہاں ایک مستقل موضوع ہے۔ حال ہی میں جناب جاوید احمد غامدی نے اس پر اپنا تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس تناظر میں مولانا عمار خان ناصر نے اپنی فیس بک وال پر ایک تجزیہ پیش کیا ہے،جسے ان کے شکریہ کے ساتھ اہل علم کے ملاحظہ کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
حضرت معاویہ کے، انتقال اقتدار کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ملوکیت کو اختیار کر لینے کی یہ توجیہ کہ ان کے پاس معروضی حالات میں عملا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا، میرے نزدیک تاریخی وواقعاتی طور پر محل نظر ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے نقطہ نظر کو رد کر دیے جانے کے بعد یہ بات طے ہو چکی تھی کہ حکمرانی قریش میں ہی رہے گی۔ خلافت عباسی کے خاتمے تک تمام مین اسٹریم سیاسی فریق، یعنی اموی، ہاشمی، عباسی، فاطمی اور علوی وغیرہ اس پر متفق تھے اور صرف خوارج وغیرہ یہ کہہ رہے تھے کہ حق اقتدار سب مسلمانوں میں مشترک ہے۔ ابتدائی صدیوں کی فقہی وکلامی روایت میں اسی لیے قریش کے حق اقتدار کو اہل سنت کے ایک امتیازی موقف کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
اس تناظر میں شوری کا اصول صرف یہ طے کرنے کے لیے کارآمد تھا کہ قریش میں سے کس کو خلیفہ بنایا جائے اور اس پر عمل بنو امیہ میں خلافت کو محصور کیے بغیر بھی ممکن تھا۔ چنانچہ یزید کے لیے بھی ارباب حل وعقد کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا گیا ، وہ صرف حضرت معاویہ کے ذاتی فیصلے سے خلیفہ نہیں بن گیا تھا۔ یہ شوری کے اصول پر ہی عمل کیا جا رہا تھا، لیکن اس قید کے ساتھ کہ ارباب حل وعقد کو آزادانہ فیصلے کا موقع دینے اور خلافت کے استحقاق کو قریش کے تمام قبائل کے مابین وسیع رکھنے کے بجائے اپنے سیاسی اثر ورسوخ سے اسے بنو امیہ میں محدود کر دیا گیا۔ یزید کی ولی عہدی کے موقع پر ان پر اعتراض بھی یہی کیا گیا تھا کہ اگر اختلاف وانتشار سے بچنے کے لیے کسی کو ولی عہد ہی بنانا ناگزیر ہے تو اپنے بیٹے کے بجائے کسی اور، زیادہ اہل اور معتمد آدمی کو بنا دیں جیسے حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو بنایا تھا۔
گویا اس فیصلے میں سلطنت کے حدود کی توسیع سے جنم لینے والی کسی عملی مجبوری کا کوئی دخل نہیں تھا۔ وہاں سرے سے یہ سوال ہی زیر بحث نہیں تھا کہ اتنی بڑی سلطنت میں اب اقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل کیسے آگے بڑھایا جائے۔ حضرت معاویہ اور ان کے سیاسی فریق ، دونوں واضح طور پر اقتدار کو قریش کے لیے خاص سمجھتے تھے اور حضرت معاویہ اسی تناظر میں بنو ہاشم کے مقابلے میں خلافت کو اپنی خاندانی عصبیت میں محصور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
حضرت معاویہ کو جو عملی مجبوری واقعتا درپیش تھی اور جو سیاسی لحاظ سے پوری طرح قابل فہم ہے، وہ دراصل یہ تھی کہ اگر اقتدار کو بنو ہاشم کی سیاسی عصبیت کے ساتھ وابستہ ہونے کا موقع دیا گیا تو نبی ﷺ کے ساتھ ان کی خاندانی نسبت کے تناظر میں قریش کے باقی خاندانوں کے لیے اقتدار میں شرکت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ یہ سوال صرف حضرت معاویہ کے نہیں، بلکہ پہلے دن سے قریش کی پوری لیڈرشپ کے سامنے تھا۔ حضرت عمر نے اس کو باقاعدہ بیان کیا ہے کہ صحابہ (علی العموم اور قریش بالخصوص) اہل بیت کو خلافت نہیں دینا چاہتے تھے، کیونکہ ایک دفعہ ان میں خلافت چلے جانے کے بعد اس کا ان سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا۔ یہ کوئی خیالی خدشہ یا محض ایک قیاس آرائی نہیں تھی، بلکہ ایک حقیقی پیچیدگی تھی اور ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ اسی چیز نے آگے چل کر امامت کی صورت میں ایک باقاعدہ سیاسی نظریے کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ قریش کے باقی خاندانوں کا بنو ہاشم کو اقتدار دینے سے اعراض بے جا اور بے بنیاد نہیں تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت علی کو ہنگامی حالات میں مجبوری کے تحت ہی خلافت دی گئی تھی اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر حضرت عثمان کے بعد معمول کے حالات میں انتقال اقتدار کا مرحلہ آتا تو لازما حضرت علی کا ہی انتخاب کیا جاتا۔ اہل بیت کو بھی اس کا پورا احساس تھا اور یہی وجہ ہے کہ سیدنا حسن نے خلافت سے دستبرداری کو قرین مصلحت سمجھا اور سیدنا حسین کی شہادت کے بعد ائمہ اہل بیت نے بھی اقتدار کی کشمکش سے الگ رہنے کو ایک عمومی پالیسی کے طور پر اختیار کر لیا۔
اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی فکر میں بنو ہاشم میں خلافت محصور ہو جانے کی صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہی سمجھا گیا کہ ان کو اقتدار سے الگ رکھا جائے۔ ظاہر ہے، اس کے لیے قریش میں متبادل عصبیت کی ضرورت تھی جو ان حالات میں بنو امیہ ہی ہو سکتے تھے۔ بنو امیہ کی عصبیت اسلام کے بعد اس طرح باقی نہیں رہی تھی جیسے زمانہ جاہلیت میں تھی۔ تاہم حضرت عثمان کے عہد میں اس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا جو بدیہی طور پر دیگر فریقوں کے لیے باعث اضطراب تھا۔ حضرت عثمان کے ناقدین میں حضرت علی اور اہل بیت کے سیاسی حامیوں مثلا حضرت عمار کے نمایاں ہونے کو بھی اس پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے واقعے نے اموی عصبیت کو واضح طور پر منظم ہو نے کا ایک غیر معمولی موقع مہیا کیا اور سیدنا معاویہ نے ابتداء سیدنا عثمان کے قصاص کے نکتے کی روشنی میں سیدنا علی کی بیعت سے انکار کیا، اور پھر باقاعدہ یہ موقف اختیار کر لیا کہ وہ حضرت علی سے زیادہ خلافت کی اہلیت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کے دینی مقام ومرتبہ اور خدمات سے انھیں انکار نہیں ہے۔ حضرت معاویہ نے اموی عصبیت کو ایسی کامیابی سے منظم کیا کہ چند ہی سالوں میں سیدنا حسن کو بھی ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ خالصتاً ایک سیاسی کشمکش تھی جس میں ایک عصبیت کے مقابلے میں دوسری عصبیت اس مرحلے پر کامیاب ہوئی، تاہم معاملہ ہمیشہ کے لیے فیصل نہیں ہو سکا اور خاص طور پر کربلا کے سانحے نے اسے امت کی تاریخ میں ایک مستقل تقسیم کا عنوان بنا دیا۔
اس مختصر تجزیے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اہل تشیع کے ظہور کو کسی یہودی سازش وغیرہ سے منسلک کرنے کا جو زاویہ نظر بہت عام ہے، وہ تاریخی لحاظ سے کتنا سطحی اور غیر حقیقی ہے۔ شیعی موقف کی گہری تاریخی وسیاسی بنیادیں ہیں، اگرچہ اس میں اعتقادی غلو شامل ہو جانے سے اس کی صورت بہت ناپسندیدہ ہو گئی ہے۔ صرف طبری کی تاریخ میں اس پورے دور کی روایات کو تفصیل سے دیکھ لیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس موضوع پر لکھے گئے طویل وعریض لٹریچر کےباوجود اسلامی تاریخ کے ابتدائی عہد سے متعلق اس مواد کا تفصیلی جائزہ لینے اور اس کی روشنی میں حتی الامکان معروضی تجزیہ کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے۔