پاکستان کی سیاست میں اس وقت ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے اور حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے کے زوردار دعوے کر رہے ہیں۔ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس کے بعد وہ حکومتی حلیف جماعتوں سمیت حکومتی پارٹی کے ناراض گروپ سے بھی رابطے بڑھا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے ایک عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے جس کا ایک حصہ وزیراعظم کے عوامی جلسوں سےخطاب کی صورت میں بھی شروع ہو چکا ہے۔
واقفان حال کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو مقتدر حلقوں کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی جا چکی ہے کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ میں نیوٹرل رہے گی اور ماضی میں وزیراعظم کو جس طرح کی غیرمعمولی حمایت دی جاتی رہی ہے وہ اب دستیاب نہیں ہوگی۔ بظاہر اپوزیشن کو اس بات کی جلدی ہے کہ کسی طرح اگلے آرمی چیف کے نام کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہی عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جائے۔ اگر عمران خان کسی طرح چند ماہ گزار لیتے ہیں تو شاید وہ آرمی چیف کے طور پر جنرل فیض حمید کے نام کا اعلان کر دیں گے جو اپوزیشن کی جماعتوں کے لئے بالعموم اور نواز شریف کے لئے بالخصوص کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔
اسی اثنا میں یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ جنرل باجوہ ایک اور ٹرم کے لئے توسیع کے خواہشمند ہیں اور ان کی اس خواہش میں رکاوٹ وزیراعظم عمران خان بن سکتے ہیں جن کی جنرل فیض سے قربت اور اعتماد کا رشتہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گو کہ عمومی تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ توسیع نہیں چاہتے مگر یہی بات جنرل راحیل شریف کے قریبی ذرائع بھی کہتے تھے جس کی قلعی اب کھل چکی ہے۔
اپوزیشن کے لئے جنرل باجوہ کی ایک بار پھر توسیع اس لحاظ سے قابل قبول ہے کہ اس سے جنرل فیض والا آپشن مسدود ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر سینئر افسران کے لئے بھی جنرل فیض کی نسبت جنرل باجوہ کی توسیع کا آپشن بوجوہ زیادہ سود مند ہے۔ اگر جنرل فیض آرمی چیف بنتے ہیں تو اپنی چوائس کے مطابق ٹیم کا انتخاب کریں گے اور خود بھی ایک سے زائد مدت کے لئے اس عہدے پر براجمان رہ سکتے ہیں۔ یہ صورتحال سوائے وزیراعظم کے کسی بھی دوسرے اسٹیک ہولڈر کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایک تناؤ کی کیفیت ملکی سیاست میں موجود ہے اور تمام فریق احتیاط سے اپنے اپنے پتے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ کب کیا چال چلنی ہے۔
ملکی سیاست میں اس وقت جو کچھ چل رہا ہے اس کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں سوائے چہروں کے کچھ بھی نہیں بدلا۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ’ سیاسی جماعتوں اور بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کے اردگرد گھومتا کھیل قیام پاکستان کے بعد سے ہی چلا آ رہا ہے اور کھیل میں کھلاڑیوں کے بدلنے کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے آخری دنوں میں چین اور امریکی کیمپوں کے ٹکراؤ کی خبریں زبان زد عام تھیں۔ خطے میں امریکی مفادات کے نگہبانی پر مامور پاکستان کے قریبی دوست ممالک کی طرف سے نواز شریف کے خلاف نفرت پوری طرح عیاں تھی اور آخر کار میاں نواز شریف کو طاقت کے مرکز سے نکال دیا گیا۔ میاں صاحب کے قریبی حلقے دبی زبانوں میں اسے سی پیک اور آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی کوششوں کی سزا قرار دیتے رہے۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان بھی اپنی تقریروں میں امریکی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہی دوست ممالک ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف لابنگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں امریکی پالیسی ساز حلقوں کی قربت کے حامل میڈیا پر مخصوص بیانیہ کو فروغ دے کر یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری’ فیٹف سے چھٹکارے’ افغانستان و کشمیر کی بند گلی سے نکلنے کے راستے سمیت سب راہیں اسی وقت کھلیں گی جب امریکی آشیرباد اسلام آباد کی سیاسی حکومت کا حاصل ہوگی۔
بعض حلقے دبے الفاظ میں یہ بھی کہہ رہے ہیں افغانستان میں جس طرح جنرل فیض نے کابل پہنچ کر یہ تاثر دیا کہ معاملات کو حل کرنے کے لئے ان کے کلیدی کردار کو تسلیم کرنا پڑے گا وہ امریکہ سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنرل باجوہ امریکہ کے لئے ایک نسبتا زیادہ قابل قبول آپشن ہیں؟ کیا اس وقت جاری اتھل پتھل اس گرینڈ گیم کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کے کئی پرت آگے چل کر پورے خطے کے لئے یکے بعد دیگرے کھلنے ہیں؟ کیا ریاض اسلام آباد کی حکومت کو امریکی خواہش کے مطابق تربیت دے کر محمد بن سلمان کے لئے بائیڈن ایڈمنسٹریشن میں نرم گوشہ پیدا کرنے کا خواہشمند ہے؟ کیا امریکہ – چین کی بائنری پاکستان کی سیاست میں ایک حقیقی فالٹ لائن کی صورت اختیار کر چکی ہے یا پھر اسے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے؟ کیا اپوزیشن جماعتیں اور خاص طور پر نواز لیگ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کو گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ ہی کے ایک دوسرے فریق سے ساز باز کرنے پر تیار ہیں اور اس کے لئے وہ صرف شخصی مفادات کے تحفظ گارنٹی چاہتے ہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کئے بغیر محض کسی چہرے کے بدلنے اور حکومت کے گرنے سے پاکستان کی ریاستی ساخت میں جو سول ملٹری تعلقات کی گرہ پڑی ہوئی ہے اسے کھولنا ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کے لئے سوچنے کا موقع ہے کہ کیا وہ ایک دوسرے کے خلاف بغض پر مبنی تاریخ کو بھلا کر ایک حقیقی میثاق کی طرف سفر شروع کر سکتے جس میں جمہوریت’ عوامی فلاح و بہبود اور ملکی معیشت کی بہتری کے ساتھ ساتھ ایک متوازن اور آزاد خارجہ پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل ہو؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پی ٹی آئی کی حکومت کے گرنے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دائروں میں جاری سفر لاحاصل رہا ہے اور آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا۔