جب کسی بھی زبان اور کلچر کا انسان یہ کہتا ہے کہ وہ ایک شاعر ’ادیب یا دانشور بننا چاہتا ہے تو وہ یہ اعلان بھی کر رہا ہوتا ہے کہ وہ لفظوں سے اپنا تخلیقی اظہار کرنا چاہتا ہے۔جب کوئی فنکار یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے تو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ وہ کیا نہیں بننا چاہتا۔ وہ شاعر بننا چاہتا ہے موسیقار نہیں بننا چاہتا وہ افسانہ نگار بننا چاہتا ہے پینٹر نہیں بننا چاہتا وہ رنگوں اور آوازوں کی بجائے لفظوں ’خیالوں اور آدرشوں سے اپنے فن پاروں کو مزین کرنا چاہتا ہے۔لفظوں کا فنکار شعوری یا غیر شعوری طور ایک صنف کا چناؤ بھی کرتا ہے۔
غالب نے شاعری کی افسانے نہیں لکھے،منٹو نے افسانے لکھے غزلیں نہیں لکھیں ،عبداللہ حسین نے ناول لکھے نظمیں نہیں لکھیں۔اردو ادب میں احمد ندیم قاسمی ان مستثنیات میں سے تھے جنہوں نے اعلیٰ درجے کے افسانے بھی لکھے اور غزلیں اور نظمیں بھی تخلیق کیں۔جب ہم کسی لکھاری کی تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس نے تفریحی ادب تخلیق کیا ہے یا سنجیدہ ادب۔ اس کا ادب ہمارے لیے صرف ENTERTAINMENT کا تحفہ لے کر آیا ہے یا کہ اس میں ENLIGHTENMENT کا تحفہ بھی شامل ہے۔مجھے تفریحی ادب کی دو مثالیں یاد آ رہی ہیں
؎ رہے ان کے بہانے ہی بہانے
بہانے ہی بہانے مار ڈالا
؎ دل لگاؤ تو لگاؤ دل سے دل
دل لگی ہی دل لگی اچھی نہیں
ان اشعار میں شاعر لفظوں سے کھیلتا نظر آتا ہےاس کے مقابلے میں جب ہم غالب کے اشعار پڑھتے ہیں۔
؎ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
؎ شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
تو ہم ان اشعار سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں اور زندگی کے مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں۔
جب ہم کوئی ادب پارہ پڑھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ شاعر اور ادیب کس قسم کے سچ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کا ادب کا نظریہ کیا ہے۔ کیا اس کا سچ ذاتی سچ ہے ’ملکی سچ ہے‘ مذہبی سچ ہے ’سیاسی سچ ہے یا نظریاتی سچ ہے۔ اس کی وفاداری ظالم سے ہے یا مظلوم سے‘ حاکم سے ہے یا محکوم سے ’جابر سے ہے یا مجبور سے۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے کس قسم کا رشتہ جوڑے ہوئے ہے۔بعض شاعر اور ادیب قاری سے ابلاغ کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور بعض ابلاغ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بعض صرف CREATIVE EXPRESSION کو اہمیت دیتے ہیں اور بعض CREATIVE COMMUNICATION کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
جب ہم منشی پریم چند اور منٹو کے افسانے پڑھتے ہیں تو ہمیں افسانے کا پورا ابلاغ ہوتا ہے لیکن جب ہم انور سجاد اور رشید امجد کے افسانے پڑھتے ہیں تو بعض دفعہ تجرید ابلاغ پر غالب آ کر ابہام کو بڑھا دیتی ہے اور قاری افسانہ پڑھ کر سر کو کھجانے لگتا ہے۔ اسی لیے اردو کے جدید افسانے نے بہت سے قاری کھو دیے۔بعض شاعر صرف کلیشے کی شاعری کرتے ہیں اور اردو کی روایتی شاعری کے گل و بلبل کے قصے دہراتے رہتے ہیں اور بعض شاعر جدید شاعری کرتے ہیں۔نئی نظم کا مطلب وہ نظم نہیں جو آپ نے کل لکھی ہے نئی نظم کا مطلب ایسی نظم ہے جو فورم form یا کونٹنٹcontent میں نئی ہو اور زبان و ادب کی روایت میں نئی چیز کا اضافہ کرے۔جب فیض نے نظم لکھی کہ
؎ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
تو وہ نئی نظم تھی کیونکہ اس میں غم جاناں اور غم دوراں کو پہلی بار یکجا کیا گیا تھا۔ن م راشد اور میرا جی کی نظمیں نئی نظمیں تھیں کیونکہ وہ آزاد نظمیں تھیں ۔عارف عبدالمتین کی وہ نظمیں نئی تھیں جو یک مصرعی نظمیں تھیں۔ اس کی ایک مثال ہے
کتبہ
؎ زیر زمیں گیا ہے وہ اپنے سراغ میں
منٹو کا افسانہ نیا تھا کیونکہ اس میں اردو ادب میں طوائف کی نفسیات کو پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ اسی لیے منٹو نے کہا تھا
’ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے‘
عالمی ادب میں البرٹ کیمو کا ناول THE STRANGERاور ژاں پال سارتر کا ناول NAUSEA نیا تھا کیونکہ اس میں وجودیت کا فلسفہ ادب کی زبان میں پیش کیا گیا تھا۔ادب کے طالب علم ہونے کے ناتے میں سمجھتا ہوں کہ ادب اس وقت ادب عالیہ بنتا ہے جب وہ ادب کے تقاضے بھی پورے کرے اور زندگی کے تقاضے بھی۔ وہ ادب میں بھی کچھ اضافہ کرے اور زندگی کے مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد دے۔ ایسا ادب ادب عالیہ کا حصہ بن کرWISDOM LITERATURE بن جاتا ہے۔
اردو ادب میں ادب عالیہ کی مثالیں
مشتاق احمد یوسفی کا مزاح
سعادت حسن منٹو کے افسانے
فیض احمد فیض کی شاعری اور
قرۃ العین کے ناول ہیں۔
ادب کا ایک پہلو ادیب کی سوانح عمری بھی ہے۔ ایسا ادب جس میں ادیب اپنی ذاتی زندگی کے حالات و واقعات سے استفادہ کرتا ہے ہم اسے BIO FICTIONکہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سلویا پلاتھ کا ناول THE BELL JARاور شاعری کا مجموعہ ARIELہے۔ سلویا پلاتھ کو ایسی شاعری کی بہت داد ملی اور انہیں انعامات سے نوازا گیا۔ وہ شاعری CONFESSIONAL POETRYکہلائی کیونکہ اس میں سلویا پلاتھ نے اپنے سب نفسیاتی مسائل ’اپنے دکھ درد‘ اپنی ڈپریشن اور اقدام خود کشی کے تمام جذبات و احساسات ساری دنیا کے سامنے رکھ دیے۔ اپنے تخلیقی اظہار کی وجہ سے وہ ادب کا حصہ بن گئے۔ببعض ادیب اپنی ادبی تخلیقات کو غزل ’نظم‘ افسانے ’ناول اور مقالے تک محدود رکھتے ہیں اور بعض اس کے دامن کو وسیع کر کے اس میں خطوط‘ ڈائری ’ترجمے اور انٹرویو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ غالب کے خطوط اس کی عمدہ مثال ہیں۔ وہ ادب پارے فن کے شہ پارے ہیں۔
بعض ادیب اور دانشور اتنے دانا ہوتے ہیں کہ ان کی نفسیات اور سماجیات کی کتابیں بھی ادبی چاشنی رکھتی ہیں۔ اس کی ایک مذہبی مثال غلام احمد پرویز کی کتابیں ہیں اگر آپ ان کے۔ سلیم کے نام خطوط۔ پڑھیں تو آپ کو ان میں دانائی کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی بھی ملے گی۔ادیبوں کا ایک قبیلہ مہاجر ادیبوں کا ہے۔ جب ایک ادیب دو زبانوں ’دو مذاہب اور دو ملکوں کی دو ثقافتوں کے تجربات کو اپنی ذات میں تخلیقی طور پر جذب کر لیتا ہے تو اس کے اندر کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اپنی زندگی کی بصیرتوں سے شہ پارے تخلیق کر سکتا ہے۔ بیسویں صدی میں ساری دنیا میں بہت سا اعلیٰ ادب مہاجر ادیبوں نے تخلیق کیا ہے۔ بعض مہاجر ادیب تو دو زبانوں میں بھی لکھتے ہیں۔
ہر شاعر ’ادیب اور دانشور کچھ فیصلے اپنی زندگی میں کرتا ہے اور کچھ فیصلے اپنی وصیت کے طور پر چھوڑ جاتا ہے۔ کافکا نے مرنے سے پہلے اپنے دو نامکمل ناولوں کے مسودے اور ایک خط اپنی میز کی دراز میں بڑی احتیاط سے اپنے عزیز دوست میکس براڈ کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ کافکا نے اس خط میں اپنے دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ ان ناولوں کو جلا دینا۔ میکس براڈ نے جلانے کی بجائے انہیں چھپوا دیا کیونکہ وہ شہ پارے تھے۔ ان ناولوں نے کافکا کی شہرت کو اس کی موت کے بعد بڑھاوا دیا۔ممیکس کا نفسیاتی تجزیہ یہ تھا اور میں نفسیات کا طالب علم ہوتے ہوئے میکس سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر کافکا واقعی ان ناولوں کو جلانا چاہتے تو وہ خود انہیں جلا دیتے۔ کافکا کی لاشعوری خواہش تھی کہ لوگ ان شہ پاروں کو پڑھیں۔
ایک ادب اور نفسیات کے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ہر شاعر ادیب اور دانشور ساری عمر کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی تخلیقات اور ادب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کوئی بھی فن پارہ اپنے خالق کے علاوہ اپنی زبان اپنے عہد اور اپنے قاری کے ساتھ بھی جڑا ہوتا ہے۔ ہرمانیوٹکس hermaneuticsکی روایت کہتی ہے کہ ہر قاری ہر تخلیق میں اپنے مزاج اور اپنے ذوق کے مطابق معنی بھرتا ہے۔ہر ادب پارہ ادھورا ہوتا ہے اس کو قاری اپنی تفہیم سے فنی تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ اگر قاری باذوق نہیں ہے تو شاعر غالب کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے
؎ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
۔ ۔