امت مسلمہ کو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان نے ہمیشہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی بات کی ہے اور اپنا فرض پورا کیا۔ مگر کیا اس امت مسلمہ نے بھی کبھی پاکستان کے لیے بات کی؟ کیا جب ہمیں ضرورت پڑی یہ امت مسلمہ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئی؟ یا ہم ہی پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کی طرح امت امت کرتے رہے اور ہمارے مسلمان بھائی اپنی اپنی دیکھ کے مصداق ہمیں نظر انداز کر کے آگے بڑھتے رہے۔
اب اس میں کیا شبہ ہے کہ مسلم امت ایک جسد واحد کی طرح ہے اور اپنے پیارے نبی مکرمﷺ کی ھدایت کے مطابق ہم پاکستانی نہ صرف اس حکم کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اس کے لیے ہمیشہ سے قربانیاں بھی دیتے چلے آئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کی جب ہم غلامی میں جکڑے ہوئے تھے تب بھی نہ تو ہم عثمانی خلافت کو بھولے اور نہ ہی اپنے فلسطینی بھائیوں کو نظر انداز کیا۔ 1919 میں بننے والی خلافت کمیٹی پہلے تحریک ترک موالات سے گذرتی ہوئی، تحریک خلافت، ہجرت، دارالحرب، موپلہ مالابار بغاوت سے ہوتی ہوئی ہزاروں مسلمانوں کی جانوں اور مال واسباب کی قربانی دیتے ہوئے ختم ہوئی۔
قیام پاکستان سے آج تک امت کے کسی بھی مسئلہ کی اخلاقی، مادی، سیاسی و سفارتی حمایت میں ہماری جانب سےسستی نہیں کی گئی۔ مگر امت مسلمہ کی طرف سے اگر کبھی کوئی پاکستان کی مدد کو آگے آیا بھی تو انفرادی سطح پر آیا۔ حد یہ ہے کہ بھارت کے پاکستان پر ہونے والے بزدلانہ حملوں کی مذمت میں بھی بہت سے مسلمان ممالک نے نہ صرف پاکستان کی زبانی حمایت سے گریز کیا بلکہ بعض نے تو درپردہ بھارت کی حمایت کر کے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا بھی گھونپا۔ آج بھی مقبوضہ وادی کشمیر کے محاصرہ کو ساڑھے چار ماہ ہونے کو آئے ہیں، صرف چند ایک مسلم ممالک نے ہی بھارت کی مذمت کی اور وہ ایران و ملائشیا ہیں جو چند سطحی بیانات کے ذریعہ ہمیں بے وقوف بنانے میں سب سے آگے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ ملائشیا کی پام آئل صرف ایک ماہ معطل رہنے کے بعد اس وقت کھل گئی جب آئل کی قیمتوں میں کمی آنے لگی اور ملائشیا کو زیادہ مالی نقصان ہونے لگا۔ تمام زبانی مذمتی بیانات کے باوجود بھارت آج بھی ایران کا دوسرا بڑا خام تیل کا خریدار ہے اور عملاً ان دونوں کے بھارت کے ساتھ کاروباری، سیاسی سفارتی، حتی کہ دلی تعلقات میں سر مو فرق نہیں آیا۔
ایک اور پہلو پر بھی نظر رکھں…پاکستان کو آج سے محض ایک سال قبل جب ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے دوستوں کی عملی مدد کی ضرورت تھی، جن دوستوں نے ہری جھنڈی دکھائی اور جنہوں نے عملی مدد کی دونوں کا فرق ملاحظہ رکھیں۔ بھوکے کو دانشوری اورلیکچرز کی نہیں روٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہو گا جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہوں اور ان کی مدد ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی لائے۔ پاکستان کے اجتماعی مفاد کے حوالہ سے دیکھیں صرف سعودی عرب سے ایک سال میں 3 ارب ڈالر نقد اور اگلے 3 سال کیلئے 9.6 ارب ڈالر کا ادھار یعنی مفت تیل ملا۔ سعودی عرب نے ایف اے ٹی ایف میں ہماری مدد کی۔ امریکہ سے معاملات کی بہتری اور کشیدگی کے خاتمہ کیلئے براہ راست رابطے کیے، آئی ایم ایف سے معاہدہ اور پیسوں کیلیے امریکہ کو قائل کیا۔ متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالر نقد دیے۔ مستقبل کے کاروباری اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کے معاہد کیے۔ صرف سعودی عرب اور امارات نے دو آئل ریفائنریوں کے منصوبوں کے لیے 16 ارب ڈالر کے معاہدے کیے جن کے سبب دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اورطویل عرصہ بعد ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کا عمل شروع ہوا۔
دونوں ممالک نے، جہاں ایک فطری عمل کے نتیجہ میں غیر ملکی ملازمین میں کمی ہو رہی ہے، پاکستانیوں کی ملازمتوں میں اضافہ کیا۔ کل 5 ارب ڈالر کا نہایت سافٹ لون کو مزید ایک سال کی لیے بڑھا دیا جس کے سبب نہ صرف ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا بلکہ روپے پر بوجھ میں کمی آئی اور روپے کی قدر میں اضافہ کا یہ بھی اھم سبب بنا۔ صرف ایک سال میں ان دو برادر اسلامی ممالک نے اور بھی بہت کچھ کیاجس کی فہرست طویل اور موقع محدود ہے مگر میرا ایک سوال ہے جس کا جواب باوجود تلاس کے مجھے ابھی تک نہیں ملا کہ ترکی ایران، ملائشیا نے کل ملا کراب تک پاکستان کو دیا کیا ہے؟ آپ کے علم میں ہو تومجھے ضرور بتائیں۔
عالم اسلام کی واحد نیوکلئر اور سب سے قوی فوجی طاقت ہونے، آبادی کے لحاظ سے دوسرے اور رقبہ کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہونے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہونے کے باوجود جن لوگوں کو دکھ تھا کہ ہمارے وزیراعظم نے کیوں غیر ملکی مہمانوں کی گاڑی خود چلائی کیا انہیں یہ نظر نہیں آیا کہ ان مہمانوں نے بھی ہمیں اتنی ہی عزت دی۔ مہاتیر محمد کی گاڑی چلانے کے جواب میں ہمیں کیا ملا؟ اور محمد بن زید اور محمد بن سلمان کی گاڑی چلانے کے جواب میں وہ دوست کیوں اب اس بات پر چپ ہیں کہ ان دونوں نے بھی ہمارے وزیراعظم کو وہی عزت دی جس کا وہ مستحق تھا۔
رہا یہ سوال کہ اسلامک کانفرنس تنظیم او آئی سی کے غیر فعال اور غیر موثر ہونے پر کسی نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے تو اس میں پاکستان کا کیا قصور؟ پاکستان نے تو اس تنظیم کو ہمیشہ امت مسلمہ کے حق کے لیے اس تنظیم کو فعال کرنے کی کوشش کی ہے مگر خود ان چار ممالک کا کیا کردار رہا ہے؟ کیا اس کا ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ مرد بیمار ترکی تو اس وقت امت کی تقسیم کے ایجنڈہ پر ہے اسے تو اپنا کھویا ہوا ماضی اور اس کی شان و شوکت بحال کرنے سے دلچسپی ہے اور اس کام کے لیےے دوبارہ انہی حدوں کے اندر خلافت عثمانیہ کا احیاء چاہتا ہے جہاں 1924 میں وہ ڈوبا تھا چاہے اس کے لیے اسے دوبارہ حرمین کے کنٹرول کا مطالبہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ کیا سو سال سے حرمین کی حفاظت اور خدمت کرنے والے آل سعود کواپنے زیر دست لانے کی خواہش میں پاکستان کو حصہ بننا چاہئے؟