ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے دعوی کیا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لئے سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ شرکت کی صورت میں سعودی عرب پاکستان کو دی گئی رقم واپس لے گا اور سعودی عرب میں مزدوری کرنے والے لاکھوں افراد کو بے دخل کردے گا۔ یہ بات درست ہے یا غلط ہر دو صورت سفارتی حملے سے کم نہیں ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا یہ دعوی درست ہے یا غلط اس کو جانچنے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔
1۔سعودی عرب کے ولی عہد نے واقعی دھمکی دی کہ کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کی صورت میں یہ اقدام کرسکتے ہیں۔
2۔ترکی کے صدر نے غلط سمجھا یا از خود ایک نتیجہ اخذ کیا یا دانستہ غلط بیانی سے کام لیا۔
3۔وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس سے جان چھڑانے کے لئے غلط بیانی کی یا از خود ایک نتیجہ اخذ کیا۔
سعودی عرب کے وضاحتی بیان کے بعد پہلی صورت کی پوزیشن واضح ہوگئی ہے کہ ایسا نہیں ہواہے۔ دوسری صورت کے حوالے سے حکومت کی مستقل خاموشی بتارہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان یا ان کے کسی ساتھی نے بالواسطہ یا بلا بلا واسطہ ترکی کے صدر تک یہ پیغام پہنچادیا ہے۔ فرض کریں کہ ایسا ہوا بھی تھا تو ترکی کے صدر کو بچکانہ انداز میں ایک دوست اور برادر مسلم ملک کو اس طرح دنیا کے سامنے رسوا کرنے کی ضرورت نہیں تھی، تاہم بیک ڈور پاکستان کی قیادت سے رابطہ کرتے مگر لگ یہی رہا ہے کہ ترکی کے صدر نے ترکی اور سعودی عرب کے تنازع میں پاکستان کو دانستہ گھسیٹنے کا فیصلہ کیا ہے، ہمارے وزیراعظم کی حماقتیں اپنی جگہ مگر ترکی کے صدر کا یہ رویہ افسوسناک، بچکانہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
تیسری صورت کے بارے میں یہ کہ وزیراعظم عمران خان یا ان کے کسی مشیر نے کانفرنس سے جان چھڑانے کے لئے یہ دانستہ یا غیر دانستہ غلط بیانی کی ہے اور یہ عمل نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل گرفت بھی ہے، اس لئے بھی کہ ان کا یہ عمل قومی تذلیل و تضحیک کا ذریعہ بناہے۔
اگر سعودی عرب کے ولی عہد نے یہ بات کی بھی تھی تو وزیراعظم عمران خان یا ان کے مشیروں کو آگے یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ بات کرنا خود کو دنیا کے سامنے بنانا ریپبلک ثابت کرنے کے مترادف ہے۔ مقتدر قوتوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا ؟؟
دنیا میں پاکستان کے تین ہی (سعودی عرب، چین اور ترکی) مخلص دوست شمار کئے جاتے ہیں مگر آج ہماری ہی غلط حکمت عملی کی وجہ سے تینوں ہم سے نالاں اور ناراض ہیں، یہ ہے ہماری ایک پیج سرکار کی 16 ماہ کی تاریخی کامیابی اور کارنامہ۔
ہم سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کراتے کراتے خود فٹ بال بن گئے ہیں اور اب یہ صورتحال ہے کہ ایک سعودی عرب اور دوسری طرف ترکی کی ناراضی کا خدشہ ہے۔
ماضی میں کئی بار پاکستان کے دوست ممالک تقسیم یہاں تک کہ آپس میں دست و گریباں ہوئے مگر پاکستان نے خوبصورتی سے اپنے آپ کو فریق بننے سے دور رکھا اور دوطرفہ تعلقات بھی برقرار رہے۔شاید فرق صرف قیادت اور سفارتی آداب اور صورت حال کے درست ادراک کا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ صورتحال اتنی خراب کیوں ہوئی ہے؟؟اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟
سوالوں کا جواب یہی ہے کہ حکمرانوں کی بچکامہ سوچ اور متکبرانہ طرز عمل کی وجہ سے آج ہم مشکل سے دوچار ہیں اور اس کی ذمہ داری حکمرانوں اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے۔
ہم تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور اس وقت اب مزید کسی غلط اور جذباتی اقدام کی بجائے غورو تدبر سے کام لینا ہوگا، کیونکہ ہم اپنا اعتماد مکمل کھو چکے ہیں۔
جو لوگ لائے ہیں ان کوچاہئے کہ کم سے کم سفارتی آداب ہی سکھا دیں یا پھر قوم کو نجات دلادیں۔