تب عُمرکے اُس حصہ میں تھے جب اندازہ نھیں تھا کہ سیاسی گہماگہمی اورنعروں کی ہماہمی میں کیا کچھ پوشیدہ ہے۔ مدرسہ میں حفظِ قرآن کررہے تھے اوراِسی ماحول میں پَل بڑھ رہے تھے۔ اخبارورسائل سے سرسری تعلق تھامگرروزانہ کی بنیاد پر اخبارپڑھتے ضرور تھے۔نظروں سے نوازشریف ،بے نظیر اورپرویزمشرف کے نام توگزرتے تھے مگران تینوں میں سے پسند کون تھا،یہ معلوم نہیں لیکن وقت کے آمر سےنفرت ضرور تھی۔ وجہ نفرت کیا تھی ، شاید اس کا جبر جس کا ہمارے خاندان میں بعض لوگوں کو سامنا تھا۔
وہ دن یاد ہے جب بی بی وطن لوٹ رہی تھیں۔ہم ٹیلی ویژن کے سامنے گھنٹوں بیٹھے رہے، ہوائی اڈے کانظارہ سامنے تھا۔ ایک خلقت جو کراچی میں اُس عورت کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھی۔لمحے طویل ہورہے تھے،پل پل کی خبر نشر ہورہی تھی۔کچھ دیر بعد دیکھا کہ ایک عورت سر پردوبٹہ لیے جہازکی سیڑھیاں اُتر رہی ہے۔ کہا جارہا تھا کہ وہ برسوں بعد وطن لوٹ رہی ہیں،فرطِ جذبات میں بی بی کی آنکھوں سے آنسوچھلکے تو مجھ سمیت نہ جانے کتنوں کی آنکھیں بلاوجہ ہی چھلک پڑیں۔وہ ایئرپورٹ سے نکل کر کچھ ہی فاصلہ طے کرپائی تھیں کہ ایک دھماکہ ہوا اور درجنوں لوگ جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔سینکڑوں تڑپ رہے تھےاور ہمارادِل مضطرب تھا۔بی بی کوصحیح طور پر جانتے بھی نہیں تھے مگر اس کی خیریت کی دعائیں مانگنے لگے ۔ کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ بی بی خیریت سے ہیں مگر انہوں نے اپنا سفر ترک کرنے سے انکار کردیا ہے۔
ملک میں نگران حکومت تھی،انتخابات کاماحول تھااورسیاسی گہماگہمی عروج پر۔خبریں آنے لگیں کہ بی بی کو سیاسی سرگرمیاں روکنے یا محدود کرنے کاکہاجارہا ہے مگر وہ آمادہ نہیں تھیں۔ "اُن "کے پاس ایک ہی بہانہ تھا کہ "بی بی کی جان کوخطرہ ہے۔”یہ "عالی دماغ” نھیں جانتے تھے کہ عین جوانی کے دنوں میں والد کے ہاتھوں قتل گاہ سے عَلم لے کرنکلنے والی بی بی کو بھلاجان کے جانے کاخوف کیوں کر ہوگا۔وہ بولتی تھیں تو سامنے سرفروشوں کاہجوم اُن کاساتھ نبھانے کاوعدہ کرتا۔یہ وہ وعدے نہیں تھے جو”قرآن وحدیث نھیں ہوتے” سو انھیں پورے کرناضروری نہیں بلکہ یہ وہ وعدے تھے جووفاہوئے۔کبھی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ،کبھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں اورکبھی بم دھماکوں میں یہ وعدے وفا ہوئے۔جہاں جہاں موت کارقص تھا یہ جیالے بی بی کے ساتھ تھے۔بالآخر27دسمبر 2007کا وہ دن بھی آن پہنچا کہ بی بی راولپنڈی میں اس جگہ پہنچتی ہیں جو وطنِ عزیز کے پہلے وزیرِاعظم کی قتل گاہ تھی۔بی بی لیاقت باغ میں داخل تو ہوئیں مگر انہیں باہرنکلنے کی مہلت نہ ملی۔
آج وہی بی بی ہے جس کی سیاست کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس پر الزام ہے کہ اس کی ملک کے لیے کوئی خدمات نہیں، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ کا نمائندہ تھیں۔ان سب سوالوں کا میرے نزدیک ایک ہی جواب ہے کہ بی بی نے اس قوم کے لیے وہ کیا جو کسی اور نے نہیں کیا اور وہ صرف یہ کہ بی بی نے ایک قتل گاہ سے دوسری قتل گاہ تک کاسفر کیا۔ یہ وہ کام ہے جو ملک کے کسی اور سیاست دان کے نصیب میں نہیں آیا۔ بی بی اس منصب پر ہی فائز ہونا چاہتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر وہی کام کیے جو مقتل کی طرف لے جانے والے تھے۔
مگر یہ کتنا عجیب ہے کہ میرے گاؤں کی عورتیں آج بھی انتخابات کے دن کسی بھی ایسے ویسے کے حق میں گواہی دے دیتی ہیں، جس نے اُن کے لیے کبھی کچھ نھیں کیاہوتا مگر یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ بی بی کانام لیتاہے۔عورتیں یہ نام سُن کر پہلے اسکی یاد میں آنسوبہاتی ہیں اورپھر اپنااختیارکھوبیٹھتی ہیں۔والد،بھائی ،باپ بھلے کسی کے حق میں گواہی دیں ،یہ ساتھ تو چل دیں گی مگر عین پردے میں داخل ہوتے ہی اپنا یہ اختیار بی بی کے حق میں استعمال کر آتی ہیں۔
بی بی نے جب اجل کوبانہیں پھیلائے لبیک کہا توشاید ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ کون جارہاہے مگرآج جبر کے ماحول میں ہم دیکھتے ہیں تواحساس ہوتاہے کہ ہم نے گئے دِنوں میں کیاکچھ گنوادیا ہے۔ستم تو یہ ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نھیں ہوپایاکہ ہم سے کیاچھین لیاگیاہے۔
بی بی نہیں ہیں لیکن نظریہ زندہ ہے اورجنگ بھی جاری ہے۔ملک کے سیاہ وسفید کے "مالک "آج بھی منتخب وزیرِ اعظم کے برطرف ہونے پر اطمینان کااظہار کرتے ہیں۔لیکن ایک سابق جرنیل کو "جنرل” کہہ کر اُس کے خلاف عدالتی فیصلہ پر اضطراب کااظہار بھی کررہےہیں۔اِ س سے پہلے وہ کبھی مضطرب نہیں ہوئے، اس وقت بھی نھیں جب منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی پرلٹکایاگیااور تب بھی نھیں جب دوبار وزیرِ اعظم بننے والی کو بیچ چوراہے میں قتل کردیاگیا۔اس وقت بھی نہیں جب ایک منتخب وزیر اعظم جو بی بی کا جیالا بھی تھاکو ایک ناکردہ جرم میں نااہل کردیا گیا،یہ تب بھی مضطرب نہ ہوئے جب ایک اور منتخب وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نااہل کردیا گیا مگر یہ سب لوگ آج ان ظالموں کے گلے کی وہ ہڈی بن چکے ہیں جو نگلے نگلتی نہیں اور اگلے اگلتی نہیں۔یہ معرکہِ حق وباطل ہو یانہ ہو لیکن لکیر کے ایک طرف حق مانگنے والے ہیں اوردوسری طرف حق چھیننے والے۔ بھلی عورت تھی کہ گالی،گولی اورکردار کشی سب برداشت کرگئی مگر مقتل سے ملنے والے پرچم کو کبھی گِرنے نہیں دیا۔
اب کے تو زمیں ایسی بانجھ ہوئی کہ کوئی جری عورت تو کیا جری مَرد بھی پیدانہیں کرپارہی۔اللہ کا ہی آسراہے کہ
؎ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی