تحریک عدم اعتماد کے بعد خان کے پاس کتنا وقت تھا کہ وہ اپنی سیاست اور سیاسی زندگی کی بنت پر غور کرتے اور پاکستان کے لیے ایک کارآمد سیاست دان کے طور پر سامنے آتے مگر وہ میں نا مانوں کی ضد پر قائم رہے۔ کئی مرتبہ تو ہمارے عزیز دوست المعروف ہمارے کامران خان نے بھی مفت کنسلٹنسی پیش کی تاکہ یہ بندہ ایک قیمتی ہیرا بن جائے مگر فواد، قریشی، پنکی اور دیگر لاج دلاروں نے اپنی پھوں پھاں باقی رکھنے کے لیے خان کی ہوا ٹائٹ کیے رکھی۔
موجودہ حکومت نے پھر سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور سنگین ترین ایف آئی آرز میں بھی گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے اور یہاں متعدد مرتبہ لکھا بھی کہ وزارت داخلہ میں براجمان ہمارے بھائی صیب خان کو بھگا بھگا کے تھکانا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ کچھ لوگوں کے عزائم خان کے متعلق ٹھیک نہیں مگر ہماری خواہش ہے کہ خان کو سیاسی انداز میں ہی ڈیل کیا جائے مگر خان نے سیاست کو اہمیت دینے کی بجائے اپنی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کو اپنے اوپر سوار کیے رکھا۔ آج وہی ہوا ہے، جیسا ایسوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
قانون نے اپنا راستہ بنایا ہے ، الیکشن کمیشن نے ثابت کیا ہے کہ قانون سپریم ہے، گالی گلوچ کو خاطر لائے قانون نے اس جھوٹے، مکار اور جعلی سیاست دان کو اپنے انجام تک پہنچانے کا آغاز کیا ہے۔