منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت پر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دینے کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس اہم پیش رفت کے باعث پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا اور پاکستانیوں کے لیے بہت آسانیاں پیدا ہونگی۔
دہشت گردی اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لیے موجود عالمی ادارے نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) پاکستان کو چار سال بعد اپنی گرے لسٹ سے نکلنے کا موقع دیا ہے۔ حکومت پاکستان اس کا اعلان بہت پہلے کرچکی تھی مگر ایف اے ٹی ایف نے اس کا باقاعدہ اعان گذشتہ روز کیا ہے جسے پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان جون 2018 سے اس لسٹ کا حصہ تھا اور کئی مرتبہ یہ تاثر ملتا رہا کہ شاید پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔
سوال مگر یہ ہے کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہے اور پاکستان کو اس لسٹ سے نکل جانے کے بعد کیا آسانیاں حاصل ہوسکتی ہیں؟
ماہرین معیشت کا اس بارے یہ کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اس حالیہ فیصلے سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی کیونکہ دنیا بھر کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کا دروازہ کھل گیا ہے۔اس سے پہلے پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے باعث کسی بین الاقوامی ادارے کے لیے یہاں سرمایہ کاری کرنا یا ہمارے بینکوں پر اعتماد کرنا خاصادشوار کام تھا۔ اب بھی اس اعتماد کی بحالی میں وقت لگ سکتا ہے مگر پاکستان کے بینکنگ سیکٹر کے پاس اپنے آپ کو مضبوط کرنے کا یہ نادر موقع ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تحت بنائے گئے قوانین پر پہلے جیسی سپرٹ کے ساتھ عمل درآمد کرتا رہے۔
بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین اور تجزیہ کار ہارون شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے لیے یہ خوش آئند بات ہے کہ اسے فیٹف نے اپنی انہانسنڈ مانیٹرنگ لسٹ سے بلآخر باہر کر دیا ہے۔ اب پاکستان ریگولر مانیٹرنگ میں آ جائے گا جس سے ایک بڑی سہولت بینکنگ سیکٹر کو ملے گی ،جس کے تحت پاکستان کو سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے دی جانے والی امداد اب باآسانی مقامی بینکوں میں آ سکے گی اور اس پیسے کی جانچ پڑتال کم ہو گی۔
ویسے تو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بہت پہلے نکل جانا چاہیے تھےمگر 2018 سے لے کر 2022 تک پاکستان کو ان تمام سفارشات کو مکمل کرنا ضروری تھا تھا جس کے بارے میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مکمل پلان تیار کر کے دیا تھا۔ یہ تمام عرصہ ان 34 سفارشات کی تکمیل میں لگ گیا۔
پاکستان نے دہشتگردی کی معاونت کو روکنے کے لیے قوانین تو بنا لیے، لیکن اب ان پر عملدرآمد کیسے ہو گا؟

پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے افکار پاک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا معیشت اور سیکورٹی سے جڑے تمام اداروں کے اندر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور انہیں مضبوط کیے بنا ان قوانین پر عملدرآمد مشکل کام ہے۔ مشتبہ ٹرانزیکشنز، ایسے گروہوں کے خلاف یا اس فرد کے خلاف یا اس کمپنی کے خلاف فوری قدم اٹھانے کے لیے معاشی و سیکورٹی اداروں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ ہم ان قوانین پر عملدرآمد کے معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ اداروں کی مضمبوطی کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔