What's Hot

    سعودی ایران معاہدے میں چین کیسے شامل ہوا

    مارچ 17, 2023

    ایران ، سعودی تعلقات کی بحالی اور پاکستان

    مارچ 10, 2023

    آخر آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اتنی سختی کیوں کررہا ہے؟

    مارچ 7, 2023
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    Home»فن و ثقافت»مادری زبان میں گالی دینے کے حیران کن فوائد
    فن و ثقافت

    مادری زبان میں گالی دینے کے حیران کن فوائد

    ویب ڈیسکBy ویب ڈیسکاکتوبر 26, 2022Updated:اکتوبر 26, 2022کوئی تبصرہ نہیں ہے۔7 Mins Read
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Pinterest Email

    بی بی سی اردو کے لیے لکھا گیا آرٹیکل

    گالم گلوچ اور غصے میں جذبات کے اظہار کو طویل عرصے سے سنجیدہ تحقیق کے موضوع کے طور پر قبول نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ محض جارحیت، زبان پر کمزور کنٹرول، یا یہاں تک کہ کم ذہانت کی علامت ہے۔

    اب ہمارے پاس ایسے بہت سارے ثبوت دستیاب ہیں جو اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور اسے ایک ایسے سنجیدہ موضوع کے طور سامنے لاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم جارحانہ الفاظ کی نوعیت اور طاقت پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ چاہے ہم گالم گلوچ کے حق میں ہیں یا نہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ وقتاً فوقتاً ایسے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔

    اس طرح جذبات کے اظہار کی طاقت کا اندازہ لگانے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ رسم کہاں سے آتی ہے، ہم نے حال ہی میں اس موضوع پر مختلف شعبوں کے 100 سے زیادہ علمی مضامین کا جائزہ لیا ہے۔

    کیا گالی گلوچ ہر ثقافت میں ایک ہی طرح کا اثر رکھتی ہے؟

    سائنسی جریدے ’لنگوا‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

    لوگ اکثر گالم گلوچ کو ’کیتھارسس‘ یعنی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے عمل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ زبان کے استعمال کے دوسرے طریقوں سے بلاشبہ مختلف اور زیادہ طاقتور طریقہ ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والوں کے لیے، اپنی مادری زبان میں گالی دینے سے ذہنی تشفی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بعد میں جو زبانیں سیکھی جاتی ہیں ان میں اس کا اظہار اس قدر سکون کا باعث نہیں بن سکتا۔

    گالی جذبات کو ابھارتی ہے۔ اس کے اثرات کو مختلف علامتوں سے سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ پسینہ آنا اور بعض اوقات دل کی دھڑکن میں اضافہ۔

    علامتی تصویر

    یہ تبدیلیاں تجویز کرتی ہیں کہ گالی دینے سے ’فائیٹ اور فلائیٹ‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نیورو سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ دماغ کے مختلف حصوں میں تقریر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں واقع ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ ’لمبک سسٹم‘ کے حصوں کو متحرک کر سکتا ہے (بشمول بیسل گینگلیا اور امیگدالا)۔

    یہ گہرے ڈھانچے میموری اور جذبات کی پروسیسنگ کے پہلوؤں میں شامل ہیں، جن کو روکنا فطری اور مشکل ہے۔ اس کی یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کو دماغی نقصان پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں بولنے میں دشواری ہو رہی ہے، ان میں اس طرح جذبات کے اظہار کی طاقت کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔ لیبارٹری کے تجربات بھی علمی اثرات دکھاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ گستاخیاں زیادہ توجہ مبذول کرتی ہیں اور دوسرے الفاظ کے مقابلے میں انھیں بہتر طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ لیکن وہ دوسرے الفاظ اور محرکات کی علمی پروسیسنگ میں بھی مداخلت کر سکتے ہیں، لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ گالی دینا بعض اوقات سوچ کے عمل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایسے تجربات میں جن میں لوگوں کو برف کے پانی میں ہاتھ ڈبونے کی ضرورت ہوتی ہے، گالی دینے سے درد سے نجات ملتی ہے۔ ان مطالعات میں غیر جانبدار الفاظ کے مقابلے میں کسی قسم کے لفظ کو آواز دینے سے درد کی برداشت زیادہ ہوتی ہے اور درد کی حد زیادہ ہوتی ہے۔ دیگر مطالعات میں جارحانہ الفاظ کے اظہار کے بعد لوگوں میں جسمانی طاقت زیادہ پائی گئی ہے۔ لیکن گالی سے نہ صرف ہمارا جسمانی اور دماغی وجود متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مواصلات اور لسانیات کی تحقیق نے قسم کھانے کے مختلف سماجی مقاصد کو ظاہر کیا ہے، جارحیت کا اظہار کرنے اور جرم کا سبب بننے سے لے کر سماجی تعلقات، مزاح، اور کہانی سنانے تک۔ اس طرح کی بے حرمتی ہماری شناخت کو منظم کرنے اور قربت اور اعتماد ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں پر توجہ اور غلبہ بڑھانے میں بھی ہماری مدد کر سکتی ہے۔ لیبارٹری کے تجربات بھی علمی اثرات دکھاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ گستاخیاں زیادہ توجہ مبذول کرتی ہیں اور دوسرے الفاظ کے مقابلے میں انھیں بہتر طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

    خاتون

    ہماری زندگیوں پر اس قدر نمایاں اثر ڈالنے کے باوجود ہم فی الحال اس بارے میں بہت کم جانتے ہیں کہ اس طرح جذبات کے اظہار کی طاقت کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔

    جب ہم کسی غیر مانوس زبان میں اس طرح کا لفظ سنتے ہیں تو یہ کسی دوسرے لفظ کی طرح لگتا ہے اور ان میں سے کوئی بھی نتیجہ نہیں نکالے گا: خود اس لفظ کی آواز کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں ہے جو عالمی طور پر ناگوار ہو۔

    تو طاقت خود الفاظ سے نہیں آتی۔ اسی طرح یہ الفاظ کے معانی یا آوازوں میں موروثی نہیں ہے: نہ ہی خوشامد اور نہ ہی اس سے ملتے جلتے الفاظ کا ہم پر اتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔

    ایک توجیہہ یہ ہے کہ ’قابل نفرت کنڈیشنگ‘ مزید جارحانہ انداز اور الفاظ میں جذبات کے اظہار سے روکنے کے لیے سزا کا استعمال، عام طور پر بچپن میں ہوتا ہے۔ یہ زبان کے استعمال اور جذباتی ردعمل کے درمیان ایک بصری تعلق قائم کر سکتا ہے۔

    اگرچہ یہ مفروضہ درست لگتا ہے لیکن اس کی تائید صرف چند ہی مطالعات سے ہوتی ہے، جنھوں نےاس طرح کے الفاظ کے لیے بچپن کی سزا کی یادوں کی چھان بین کی ہے۔

    ایسی یادوں اور جذباتی الفاظ کے بارے میں بالغ افراد کے ردعمل کے درمیان تعلق کے بارے میں تقریباً کوئی تجرباتی مطالعہ نہیں ہے۔

    اس بات کی تہہ تک جانے کے لیے کہ گالی دینے کا ہم پر اتنا گہرا اثر کیوں ہے، ہمیں لوگوں کی جذبات کے اظہار کی یادوں کی نوعیت کی چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔

    ششی کپور

    ایسے الفاظ کے ساتھ آپ کے اہم واقعات کیا تھے؟

    کیا جذباتی الفاظ کے اظہار سے ہمیشہ ناخوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں، جیسے سزا یا اس کے فوائد؟ لوگوں کے زندگی بھر قسم کھانے کے مسلسل تجربات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سب کے بعد، ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے نا خوشگوار الفاظ سے بعض اوقات لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ گالم گلوچ، موسیقی کی طرح یادداشت کا نمونہ دکھاتی ہو: ہم جوانی کے دوران سننے والے گانوں کو یاد رکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کی طرح نوعمری میں اس طرح کے جذبات کا اظہار بالکل نیا معنی لے سکتے ہیں۔ یہ اس وقت کے دوران ہمارے جذبات کا جواب دینے کا ایک اہم طریقہ بن جاتا ہے اور ایسا عمل جو والدین سے آزادی اور دوستوں کے ساتھ تعلق کا اشارہ دیتا ہے۔

    لہٰذا اس دوران استعمال ہونے والے گالم گلوچ والے سخت الفاظ اور گانے ہمیشہ کے لیے اہم اور یادگار تجربات سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ تحقیق میں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ آیا گالم گلوچ کی یادوں اور تجربات میں نظر آنے والے اثرات کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ زیادہ مثبت یادیں رکھنے والے لوگ منفی یادوں والے لوگوں کے مقابلے میں مختلف طریقے سے جواب دیتے ہیں۔ غور کرنے کے لیے ایک حتمی نکتہ یہ ہے کہ جذباتی اظہار کی یہ رسم اگر سماجی طور پر زیادہ قابل قبول ہو جائے تو کیا وہ اپنی طاقت کھونا شروع کر دے گی اور یوں اپنے جارحانہ پہلوؤں سے محروم ہو جائے گی۔ ابھی  اگرچہ یہ یقینی طور پر محض زبان کی ایک لغزش ہی ہے۔

    اس سب کے بعد، ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے نا خوشگوار الفاظ سے بعض اوقات لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    ثقافت لائف سٹائل معاشرہ
    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    ویب ڈیسک

    Related Posts

    بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں سیرت سیمینار و سیرت نمائش کا اہتمام

    نومبر 2, 2022

    دوسرا کپ۔۔۔۔۔!

    اپریل 7, 2022

    اردو اور انگریزی میں لسانی تجربات

    مارچ 24, 2022

    ہائبرڈ بندوبست ناکام کیوں ہوتا ہے؟

    مارچ 7, 2022
    Add A Comment

    Leave A Reply Cancel Reply

    Top Posts

    Subscribe to Updates

    Get the latest sports news from SportsSite about soccer, football and tennis.

    Advertisement
    Demo
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter
    • ہمارے بارے میں
    • رابطه
    • استعمال کی شرائط
    • پرائیویسی پالیسی

    © جملہ حقوق  بحق       Dtek Solutions  محفوظ ہیں 2022