سیاست پاور کا کھیل ہے اور ازل سے یہی اس کا دستور ہے۔ آئینی بندوبست میں پاور کے مراکز کا تعین کر کے ان کی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کو بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس بندوبست میں ریاستی پاور کے حامل ہر ادارے کو باندھ کر محدود کر دینے کا نام دستوریت کہلاتا ہے۔ جو اس دستوریت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسے آئینی طریقے سے شٹ اپ کال دے کر واپس آئینی دائرہ کار میں محدود کرنے کا انتظام بھی دستوریت کے تقاضوں میں شامل ہے۔ پاور کے دستوری بندوبست سے ماورا مراکز جب وجود میں آتے ہیں تو وہی نتیجہ نکلتا ہے جس کا سامنا ہم اس وقت پاکستان میں کر رہے ہیں۔ ریاستی اداروں میں سب سے پاورفل اور بااختیار عہدہ وزیراعظم کا سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس عہدے کے حصول کے لئے وہ فساد و کشمکش کی فضا دیکھنے میں نہیں آتی جو پاور کے ڈی فیکٹو مرکز کے حصول کے لئے دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے لئے جنرل کیانی جو کچھ کرتے رہے اس کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ موجودہ چیف کی تقرری کے وقت جو بیان بازی کروائی گئی وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایکسٹینشن کے وقت تو معاملہ باقاعدہ سپریم کورٹ میں سنسنی خیزی کے مراحل سے گزرا۔ اس وقت ایک بار پھر ہیجان کی کیفیت ہے۔ دستوری بندوبست میں تو یہ عہدہ کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں ہوتا مگر جب دستوریت کے تقاضے پامال کر کے پاور کے نئے مراکز وجود میں آتے ہیں تو پھر اس کھیل کے کوئی آئینی قواعد و ضوابط تو ہوتے نہیں۔ پاور کے اس کھیل کو فاؤل پلے کی طرح کھیلا جاتا ہے اور اس میں کاروبار’ سیاست’ مذہب’ خارجہ امور’ خاک و خون سمیت ہر داؤ آزمایا جاتا ہے۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں فریق مخالف کی نفرت میں اور عہدے کی محبت میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ پاور کا یہ مرکز دستوریت کے دائرہ کار سے ہی ماورا ہے اس لئے یہ خالص اور کلی پاور کا حامل ہے۔ اس عہدے سے وابستہ نظام کے کارپوریٹ مفادات اتنے وسیع اور ہمہ گیر ہو چکے ہیں کہ اس کا قد کاٹھ اور حجم ریاست کے وجود کو آوٹ گرو کرنے لگا ہے۔ یہی اس کی کشش ہے اور یہی اس کا المیہ بھی! کشش اس لئے کہ اس کے حصول میں بادشاہت کی سی تمکنت اور اختیار ہے اور المیہ اس لئے کہ اس کے حصول کے لئے ہر وہ داؤ اختیار کرنا پڑتا ہے جسے استعمال کر کے بادشاہ تخت نشین ہوتے تھے۔ دیکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والا دماغ ہو تو آج بھی اپنے مقابل کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اور اسے تہس نہس کر کے پاور کے الٹی میٹ مقام کے حصول کی لڑائی اس جنگلستان میں پوری طرح جاری ہے!
چند سالوں کے بعد رچائے جانے والے اس مہنگے کھیل سے جان چھڑانے کی واحد صورت دستوریت کے تقاضوں کا لحاظ و پاسداری ہے۔ اس عہدے سے جڑے بے پناہ اختیارات و تصرفات کو جب تک دستوری بندوبست کے تحت محدود نہیں کیا جائے گا اس وقت تک یہ جنجال جاری رہے گا۔ معیشت’ امن و امان’ خارجہ امور’ مذہبی کارڈ کے استعمال اور ملکی سیاست کے کنٹرول وغیرہ کے تک سارے کام تو اس پورٹ فولیو کے مینو میں موجود ہیں۔ اس پر مستزاد ایک پوری کارپوریٹ ایمپائر ہے جس کی مالیت و حجم کا درست تخمینہ لگانا بھی ناممکن ہے۔ اس ڈی فیکٹو قوت کو ملکی بندوبست کا اختیار باضابطہ طور پر سپرد کر دینے کی تجویز خورشید ندیم صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں پیش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دستوری’ جمہوری اور اخلاقی لحاظ سے ناقابل قبول حل ہے کہ محض کسی حل کی عملیت اسے جواز عطا نہیں کرتی۔