ملک میں جاری سیاسی حالات نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ کوئی چاہ کر بھی ان حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ کی عادت لمحہ بہ لمحہ خود کو باخبر رکھنے کی ہے تو بلڈ پریشر بے قابو ہونے کو یہی ایک وجہ کافی ہے۔ چلیں اسی تناؤ والے ماحول سے خیر کی بات نکالتے ہیں۔
وقت کو فاسٹ فاروڈ کریں اور 2023ء کے اکتوبر، نومبر تک پہنچیں۔ پاکستان میں انتخابات ہوچکے ہوں گے، نئی حکومت آچکی ہوگی، ہم ٹینشن کے ماحول کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہوں گے اور نئے مائی لارڈ اور مائی گارڈ موجود ہوں گے۔ پاکستان سے باہر بیٹھا کوئی تجزیہ کار ایک اعتراف ضرور کرے گا کہ اس ملک کے نظام میں دم ہے کہ یہ اتنے بڑے بحرانوں سے نکل آیا۔
وفاق میں ایک ایسی جماعت کی حکومت تھی جس کی پاکستان کے کسی صوبے میں حکومت نہیں تھی، مگر اس کے باوجود وہ کام چلا گئی۔ جو اپوزیشن لیڈر تھا اس کی جماعت کی سب سے بڑے رقبے پر حکومت تھی، وہ وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلا تھا، وہ ضمنی انتخابات جیت رہا تھا، دھرنے اور لانگ مارچ کر رہا تھا، عدالتوں میں پھر رہا تھا، اپنی حکومت جانے کی وجہ بیرونی سازش بتا رہا تھا اور اس کے حمایتی اس کے ساتھ آتشی گلابی ہوئے پھر رہے تھے۔
فوج پہلی بار براہِ راست عوامی تنقید کی زد میں تھی۔ جسے غصہ تھا وہ نام لے لے کر سنا رہا تھا۔ آرمی چیف ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنا وقت گزار رہے تھے۔ پہلی بار ادارے میں اندرونی تقسیم تک کی باتیں کھلے عام ہو رہی تھیں۔ جس جنرل پر اس تقسیم کی قیادت کا الزام لگ رہا تھا وہ لگاتار تیسری اہم پوسٹنگ پر کمان بھی کررہا تھا۔ نام لیتے ہیں کہ یہ جنرل فیض کا ذکر ہے جو ڈی جی آئی ایس آئی رہے، پھر پشاور کے کور کمانڈر رہے اور پھر بہاولپور کے کور کمانڈر بنے۔
یہ سب بہت عجیب تھا کہ ایک فوجی افسر کا نام آرہا تھا۔ طرح طرح کی کہانیاں جوڑی جارہی تھیں۔ وہ بدستور اہم پوزیشن پر قائم تھا، یہ قیام ہی بہت باتوں اور اعتراضات و سوالات کا جواب تھا۔ لیکن باتیں ہو رہی تھیں اور ردِعمل تھا کہ نہیں آرہا تھا۔ فوج برداشت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ویگو ڈالوں کی میم بھی بن رہی تھیں۔ لوگ ڈرتے بھی تھے اور بات بھی کرتے تھے۔ یہ سب نیا اور انوکھا تھا جو پاکستان میں ہو رہا تھا۔
اکتوبر، نومبر 2023ء میں کوئی غیر پاکستانی تجزیہ کار جب یہ سب دیکھ اور سوچ کر حساب لگائے گا، تب پاکستانی نظام کی بڑھتی ادارہ جاتی برداشت اور اتنے اسپیڈ بریکروں سے گزرنے کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اسے یہ تعریف اس لیے بھی کرنی پڑے گی کہ وہ ایک اور بات بھی دیکھے گا تو سمجھ جائے گا۔ وہ یہ کہ جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) احتجاج کر رہی تھی تو فوج تنقید و مخالفت برداشت کر رہی تھی۔
سوشل میڈیا بے قابو تھا۔ تب پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدان آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور نوازشریف خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ اس لیے لاتعلق تھے کہ فوج جانے اور کپتان جانے۔ دونوں کا سیاست کا شوق اور اتحاد سب کے سامنے ٹوٹا تھا۔ نہ کپتان تبدیلی لاسکا تھا نہ احتساب کرسکا تھا اور نہ فوج کو اچھی حکومت ملی تھی جو معیشت، سفارت اور سیکیورٹی پر اس کا ہاتھ بٹاتی۔ پرانے سیاستدانوں کی زوردار واپسی ہوگئی تھی۔ایک سال بعد جب ہم اس بحران سے نکل چکے ہوں گے تب کوئی غیر ملکی تجزیہ کار تو جو تعریف کرے گا سو کرے گا۔ ہم خود بھی اپنے آپ کو شاباش دیں گے کہ استاد خیریت سے نکل آئے۔
لیکن یہ سب اتنا آسان ہے نہیں۔ کپتان اس وقت مسلسل باؤنسر کروا رہا ہے۔ باؤنسر تو چلو ٹھیک ہیں لیکن ہر باؤنسر نو-بال کے ساتھ ہورہی ہے۔ یعنی اسے بہت جارحانہ باؤلنگ کے باوجود وکٹ نہیں ملے گی۔
اس وقت کپتان کا نشانہ فوج اور مسلم لیگ (ن) ہے۔ اگلی بات سن کر آپ نے ہنسنا نہیں ہے۔ یہ سنجیدہ بات ہے۔ مسلم لیگ وہ جماعت ہے جس نے نوجوانوں کو پہلے لیپ ٹاپ فراہم کیے۔ اس کے بعد انٹرنیٹ کی ڈیوائس بھی مفت فراہم کیں۔ آئی ایس پی آر نے ففتھ جنریشن وار کے لیے بڑی محنت سے نوجوانوں کی ٹریننگ کی، انہیں بھرتی کیا اور مہم چلانے، ٹرینڈ بنانے اور مخالف سے ایک قدم آگے رہنا سکھایا۔ مگر یہ ساری مہارت اور مدد پی ٹی آئی کے کام آرہی ہے۔ پورس کو اس کے اپنے ہی ہاتھیوں کا سامنا ہے۔ اس ہاتھی والی مثال سے اپنی تسلی نہیں ہوئی۔ اصل مثال وہ تیل فراہم کرنے والی فٹ ہوتی ہے۔ہم جب پاکستان میں سیاسی اجتماع، احتجاج اور لانگ مارچ کرتے ہیں یا ان کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم نے دہشتگردی کی ایک لہر کا رخ موڑا ہے۔ اس میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ ایسا ہم تب کرسکے ہیں جب سیکیورٹی اداروں کو سیاسی حمایت حاصل ہوئی۔ پولیس، فوج اور سیاسی جماعتوں کے شہیدوں کی طویل فہرست ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جن پر حملے ہوئے ہیں۔
ہم نے اپنی اہم ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کو کھویا ہے۔ یہ سب کیوں ہوا اس کی سادہ وجہ بس اتنی سی ہے کہ یہ سارے سیاسی لیڈر دہشت اور خوف کو توڑتے تھے۔ لوگ جب بہت ڈرے ہوتے تھے تب بھی بے نظیر کے لیے، اسفندیار خان کے لیے، مولانا فضل الرحمٰن کے لیے، آفتاب شیر پاؤ کے لیے اور محمود خان اچکزئی کے لیے باہر نکل آتے تھے۔
نوازشریف، مریم نواز، بلاول بھٹو، اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور بہت سے اور سیاسی رہنما ہیں جن کے لیے لوگ باہر آجاتے ہیں۔ کپتان کے ساتھ ہماری سیاست میں بہت رنگ ہیں۔ وہ احتجاج کرتا ہے تو اسٹیج پر گیت بھی چلتے ہیں، سامنے لوگ ناچتے ہیں، اس کے اعتراض پر فوج ری ایکٹ نہیں کرتی بلکہ برداشت کرتی ہے۔ ہم سیاست میں مذہبی ٹچ تھوڑا کم کرلیں تو بہت تناؤ کم ہوجائے گا۔ جب یہ ٹچ کم ہوگا تو ایک دوسرے پر اعتراض بھی خاصے کم ہوجائیں گے۔ یہ سیاسی جنگ ہی رہ جائے گی، اس سے حق و باطل کا معرکہ نکل جائے گا۔اگر ہمیں 10 مہینے، سال دو یا 10 سال بعد کسی غیر سے اپنے نظام کی برداشت اور بحران سے نکلنے کی تعریف کروانی ہے تو حوصلے سے یہ وقت گزارنا ہوگا۔ ویسے اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، پہلے بڑا دنیا ہماری تعریف کے پل باندھتی ہے۔ اس کے بغیر بھی ہمارا گزارا چل جائے گا۔