گلگت بلتستان میں نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اعدادوشمار حیران کن ہیں۔
ڈان اخبار کے مطابق سال 2022 کے پہلے چھ مہینوں کے دوران خودکشی کے 15 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 222 سے زائد افراد نے اپنی جان لے لی ہےجبکہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ” Prevention of Suicides in Gilgit Baltistan: An Integrated Multisectoral Strategy and Roadmap for Implementation “ کے مطابق جنوری 2005 سے جون 2022 تک جی بی میں 573 خودکشی کی اموات رپورٹ ہوئیں۔ تاہم 2022 میں کیسز کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پہلے سات مہینوں میں 65 کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ 2021 کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہیں ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان تمام کیسز میں سے سب سے زیادہ واقعات ضلع غذر میں (64.9 فیصد)، اس کے بعد گلگت (10.7 فیصد)، اسکردو (8 فیصد) اور ہنزہ (7.5 فیصد) میں پیش آئے، جن میں سے 54 فیصد لوگ غیر شادی شدہ تھے جب کہ شادی شدہ میں 47 فیصد مرد اور 53 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے 79 فیصد مرنے والوں کی عمریں 15 سے 39 سال کے درمیان تھیں، جب کہ تمام اموات میں سے نصف سے زیادہ مرد (54 فیصد) تھے۔
خود کشی کے ان واقعات کی اصل وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہیں، تاہم کچھ محققین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بڑی وجہ سماجی تبدیلی اور ذہنی عارضے کی غیر متزلزل رفتار ہے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ جی بی بھرمیں خودکشی کے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، کیونکہ خودکشی کے بہت سے واقعات کو غلط طور پر قتل یا حادثات سمجھا جاتا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جی بی پولیس کو تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ بہت سے کیس دراصل قتل کے واقعات تھے۔
رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ڈپریشن خودکشیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے، ذہنی صحت کے مسائل اور گھریلو مسائل کو بھی وجوہات میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم، ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مضبوط طریقہ کار کی عدم موجودگی ان مقدمات کی تعداد کو کم کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں کمیونٹی کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر موجود کئی چیلنجز کو اجاگر کیا گیا ہے جو خود کشی جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ "جی بی میں کمیونٹی سے لے کر اعلیٰ سطحوں تک پبلک سیکٹر میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً مفقود ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صحت کی دیکھ بھال کا موجودہ نظام خودکشی کے واقعات کو روکنے کے قابل نہیں ہے۔
نفسیاتی مریضوں کو اکثر میڈیکل وارڈز میں بستروں کے لیے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ محکمہ صحت کی طرف سے اسے ترجیحی مسائل میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ ہسپتالوں کاعملہ شدید نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو صحیح نگہداشت فراہم کرنے کی تربیت سے محروم ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا جب کہ کوئی نفسیاتی تشخیص، رسک اسیسمنٹ کی پیروی بھی نہیں کی جا رہی تھی۔
کمیونٹی کی سطح کے چیلنجوں کے حوالے سے، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ذہنی صحت سے متعلق اعلیٰ درجے کا نفسیاتی عارضہ والدین اور بچوں کے درمیان رابطے کی کمی کی وجہ سے پیش آتا ہے، تعلیمی دباؤ اور جذبات کے اظہار پر لگی سماجی پابندیاں بھی ایسے عوامل میں شامل ہیں جن کے نتیجے میں خودکشیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔
والدین اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں روایتی اور جدید اقدار کے درمیان تناؤ، غیرضروری مسابقت اور نوجوانوں میں تعلیمی کامیابی کے لیے خاندانوں کے درمیان موازنہ، روایتی گھریلو اختلافات کا وجود بعض اوقات تشدد کی کارروائیوں کا باعث بنتا ہے، تعلیم یافتہ افراد میں ملازمت کے محدود مواقع اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال جیسے دیگر چند اہم سماجی اور اقتصادی مسائل بھی رپورٹ میں خود کشیوں کا سبب بیان کیے گئے ہیں۔
گورننس اور ریگولیشن کو مضبوط بنانے کے لیے، رپورٹ میں پولیس، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ہم آہنگی کی سفارش کی گئی ہے۔ سرکاری اداروں کی استعداد کار میں اضافہ اور خودکشی کو جرم سے پاک کرنا۔
رپورٹ کے آخر میں چند تجاویز دی گئی ہیں جن پر عملدرآمد سے کسی حد تک اس بحران پر قابو پانا ممکن ہے۔
تجاویز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محکمہ صحت کے اہلکاروں کے درمیان ہم آہنگی اور معلومات کے تبادلے کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
محکمہ صحت کو مزید وسائل سے لیس کرنے اور کمیونٹی میں خودکشی کو بطور جرم واضح کرنے جیسی کوششیں ضروری قرار دی گئی ہیں۔
شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاقیات کو فروغ دیں اور ایسے واقعات کی رپورٹنگ کو بہتر بنائیں تاکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے، واقعات کی وجوہات تلاش کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو۔
اساتذہ کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور ایسے طلبہ جن میں کوئی ایسی شکایت پائی جاتی ہو، اسے حل کرنے کے لیے بچوں کے والدین کو مشاورت میں شامل کریں تاکہ ذہنی صحت کے مسائل کی نشاندہی ہو اور بنیادی نفسیاتی تعلیم کو فروغ مل سکے۔
اس حوالے سے سول سوسائٹی، والدین اور علماء کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے کہ وہ خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات کو کم کرنے میں حکومت اور دیگر اداروں کی مدد کریں۔
نوجوان ہماری قوم کا مستقبل اور سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان میں خودکشی کا پھیلاؤ سب کے لیے تشویشناک ہونا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ رپورٹ میں پیش کیے گئے مذکورہ عوامل ہی دراصل خود کشی کے پھیلاؤ کا اصل سبب ہیں؟ کیونکہ تعلیمی دباؤ اور روزگار کے مواقع کم ہونے اور جنریشن گیپ ایک سرسری اور سطحی سی بات محسوس ہوتی ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری اور کیرئیر سے وابستہ دباؤ ملک بھر میں تقریباً یکساں ہی ہے یا پھر کم از کم دور دراز کے علاقوں میں تو معاملہ ایک جیسا ہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ اور عمیق تجزیہ کی ضرورت ہے کہ کہیں منشیات کے استعمال اور لایعنیت کے نظریات پر مشتمل کلٹ تو فروغ نہیں پا رہا؟