معاشی معاملات سے واقفیت رکھنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیں کہ پاکستان کی معیشت کا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو وہ کہیں گے ہماری معیشت کا بنیادی مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہےاور یہی صحیح جواب ہوگا۔ ہماری معیشت عروج و زوال کا شکار اس لیے رہتی ہے کہ ہم جب بھی ترقی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چلے جاتے ہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی کم پیداواری صلاحیت کی وجہ سے ہمیشہ غریب رہتے ہیں، لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔)
غیر ملکی کرنسی کے باہر جانے (درآمدات) اور آنے والے زرمبادلہ (برآمدات اور ترسیلات) کے درمیان فرق کا نام کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ پاکستان کے معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو 75 سالہ تاریخ میں تین سالوں کے علاوہ ہم ہمیشہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں رہے ہیں۔1950 کی دہائی میں پاکستان کی برآمدات جنوبی کوریا سے زیادہ تھیں، جبکہ 1990 کی دہائی میں ہماری برآمدات ویتنام سے زیادہ تھیں۔ آج جنوبی کوریا اور ویتنام کی برآمدات پاکستان سے بالترتیب 18 گنا اور چھ گنا زیادہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ برآمدات میں زوال کی ہماری کہانی پرانی اور مستقل ہے۔
1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو ہماری برآمدات جی ڈی پی کا 16 فیصد تھیں۔ آخر کارجب جنرل صاحب رخصت ہوئے تو ہماری برآمدات کم ہو کر جی ڈی پی کا 12 فیصد رہ گئی تھیں. 8-2007 میں حکومت نے روپے کو ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 60 روپے کی غیر پائیدار قیمت پر رکھا، پیٹرول کو خسارے میں بیچا، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ رہا۔ جب پی پی پی کی نئی حکومت آئی تو اسے روپے کی قدر میں کمی کرکے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔لیکن پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ ملنا چاہیے کہ اس نے جی ڈی پی کے لیے 13.5 فیصد تک برآمدات کو بڑھایا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) آئی، اس نے جہاں توانائی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور CPEC کو آگے بڑھانے میں ٹھوس کام کیا، وہیں ہماری برآمدات 38 فیصد سے کم ہوکر صرف 8.5 فیصد تک رہ گئیں اور ہم نے اپنی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دیکھا۔ مسئلہ وہی ڈالر کی کرنسی کا تھا جس نے درآمدات کو بہت زیادہ سبسڈی دی اور ان میں اضافہ کیا، مگر ہماری برآمدات کی قیمتیں کم ہوتی رہیں۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ بطور وزیر خزانہ کام کرتے ہوئے ہم نے قدر میں کمی کے ذریعے ترمیم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا حل آئی ایم ایف میں موجود تھا، جو انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے بعد ہی ممکن ہو سکتا تھا۔الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو وہ پہلے سے جاری پالیسیوں کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے مزید بہتر کرسکتی تھی۔
وبائی مرض کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ، جسے پی ٹی آئی حکومت نے اچھی طرح سے سنبھالا، آئی ایم ایف کی شرائط ختم کر دی گئیں یہاں تک کہ قرضے آتے رہے۔ اس نے ٹیکس محصولات میں اضافہ کیے بغیر ادھار کی رقم خرچ کرنے کی اجازت دی۔ مگر غیر پائیدار ترقی کی خواہش نے ہماری درآمدات کو ٹربو چارج کیا مگر جی ڈی پی جمود کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے ہم اپنی تاریخ کے تیسرے سب سے بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چلے گئے۔ اگرچہ گزشتہ سال دسمبر میں پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے انتہائی ضروری پروگرام کو دوبارہ شروع کیا تھا مگر فروری میں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرتے ہوئے، پی ٹی آئی نے سیاسی مفاد کے لیے قومی مفاد کو قربان کرنے کا انتخاب کیا اور آئی ایم ایف پروگرام کو ختم کر دیا، جس کے لیے غیر موجود فنڈز کی سبسڈی دی گی جو کہ آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس نے ہمارے پہلے سے طے شدہ خطرے میں اضافے کے رجحان کو متحرک کردیا۔
جب نئی حکومت آئی تو آئی ایم ایف پروگرام کی تجدید اور پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ہمیں جو کرنا چاہیے تھا، وہ کیا۔ اس میں واضح طور پر ہمیں کچھ سخت فیصلے بھی کرنے پڑے اور مجھ پر ہر طرف سے مسلسل تنقید کی گئی۔ بنیادی تنقیدیں ہماری مارکیٹوں کو روپے کی قدر میں کمی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں میں اضافے کے بارے میں تھیں۔
ہمیں خوشی ہوتی اگر ہم ڈالر کی قدر میں کمی کرنے میں کامیاب ہوجاتے لیکن میں ڈالر کو ایک خاص شرح پر رکھنے کے لیے پیسہ خرچ کرنے یا انتظامی احکامات جاری کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈالر کا بہترین ریٹ کیا ہے؛ میرے خیال میں صرف مارکیٹ ہی اس کا تعین کر سکتی ہے۔ پچھلے سال ہماری درآمدات 80 بلین ڈالر تھیں اور برآمدات صرف 31 بلین ڈالر تھیں۔ یقیناً وزیر خزانہ کی اولین ترجیح درآمدات کو سستا اور برآمدات کو مشکل بنانا نہیں ہونا چاہیے، جو کہ قدرے بڑھے ہوئے روپے سے ہوتا ہے۔ ہم اس سے پہلے 8-2007 اور18-2017 میںاس راستے سے گزر چکے تھے۔ (1990 کی دہائی میں مغربی ممالک کو ایک شکایت یہ تھی کہ چین اپنی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہم، روپے کی قدر کو زیادہ رکھ کر درآمدات کو فروغ دینا اور برآمدات اور ترسیلات کو محدود کرنا چاہتے ہیں اور پھر جب ہمارے پاس مالیت ختم ہو جاتی ہے تو ہم ڈالر کی قدر میں اضافے کی شکایت کرتے ہیں۔)
آج، اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ایکسچینج ریٹ میں بڑا فرق ہے جسے مستقل روا رکھا جارہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ بینک غیر رسمی طور پر شرح مبادلہ پر بینکوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ بڑا فرق ہماری برآمدات اور ترسیلات کے لیے بھی نقصان دہ ہے جبکہ یہہماری درآمدات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
دوسری تنقید ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور نئے ٹیکس عائد کرنا تھی۔ لیکن کیا ہماری حکومت کو پیٹرول خسارے میں بیچنا چاہیے تھا؟ مزید یہ کہ اگر پاکستان میں 2.2 ملین دکانیں ہیں اور صرف 30,000 انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کیا ان سے صرف 3,000 روپے ماہانہ ادا کرنے کا کہنا غیر مناسب ہے۔
آج ہمارا پہلے سے طے شدہ خطرہ پھر سے بڑھ گیا ہے اور یہ خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔ دسمبر کے بانڈز کی ادائیگی کے بعد بھی یہ خطرہ ختم نہیں ہوگا۔ خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مارکیٹوں اور قرض دہندگان کو یقین دلانے والے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
ایک وقت آتا ہے جب قومی مفاد کو سیاسی مفاد پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اور شاید وہ وقت آچکا ہے۔ اس حکومت کو پی ٹی آئی یا کسی دوسرے پر تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا، اگر اقتدار میں آنے کا بے تابی سے کیے گئے فیصلے کے بعد وہ ملک کے لیے صحیح کام کرنے سے قاصر ہے۔