پاکستانی میں جاری مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک بار پھر مذہبی دلائل کے ساتھ فتاویٰ جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ فتاویٰ جات ٹی ٹی پی کے مذہبی بیانیے کے توڑ اور عسکریت پسندوں کے بادبانوں سے ہوا نکالنے لیے پیش کیے جارہے ہیں، جنہیں کسی حد تک ریاست کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔
اس سلسلے میں خیبر پختونخواہ میں مذہبی اداروں کی نمائندگی کرنے والے 16 علماء کرام نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں ایک بار پھر یہ واضح کیا گیا ہے کہ صرف اسلامی مملکت کے سربراہ کو جہاد کی دعوت دینے کا حق حاصل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مملکت میں رہنے والے باشندوں کو اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد کرنے، آئین پاکستان سے وفادار رہنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ ایسے فتاویٰ جات کی تائید کرنے والے علماء کرام کا تعلق تمام مسلم فرقوں سے ہے اور وہ اپنے اپنے مسالک کی نمائندگی بھی کرتے ہیں مگر حال ہی میں جاری ہونے والے فتویٰ پر دستخط کرنے والے علماء کرام میں سے اکثر کا تعلق دیوبندی، اہل حدیث مکاتب فکر اور بااثر دینی مدارس سے ہے۔
پرتشدد انتہاپسندوں کے اشتعال انگیز بیانیے کا مؤثر جواب دینے کے لیے بھرپور علمی دلائل سے مربوط مؤثر بیانیہ بنانے کی ضروت ہمیشہ سے رہی ہے، مگر باوجود کئی کوششوں کے ہم انسداد دہشت گردی کا مؤثر بیانیہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد بیس نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان اور پیغام پاکستان کے عنوان پر ایک پراجیکٹ لانچ کرکے، جس میں ملک بھر کی مذہبی قیادت کو جمع کرکے ایک متفقہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس سے پہلے 90 کی دہائی میں ملی یکجہتی کونسل ، پنجاب علماء بورڈ اور فرقہ ورانہ فسادات کے خاتمے کے لیے بنائی گئی وزیراعظم کی کمیٹی کی کوششیں اس کے علاوہ ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے فوائد آج تک ریاست کو حاصل نہیں ہوسکے اور اب ایک بار پھر ریاست کو مذہبی شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ایک نیا بیانیہ بنانے کا چیلنج درپیش ہے، جس سے نمٹنے کے لیے روایتی طریقے آزمائے جارہے ہیں کہ علماء کو جمع کرکے عسکریت پسندوں کے خلاف فتاویٰ جاری کروائے جائیں، جو دور رس اثرات کے حامل نہیں ہیں۔
مزہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کےلیے دوسوالات پر غور کرنا بڑا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں افغان وار کے دوران جہاد کے نام پر ریاست نے جن مذہبی گروہوں کو جنگی تربیت دینے اور انہیں مسلح کرنے کی جو غلطی کی تھی، اس کا اعتراف کرکے آئندہ ایسے کسی کام میں عام شہریوں کو شامل نہ کرنے کا عزم کیا جاسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ کیا عسکریت پسند کوئی معقول بات سننے پر امادہ بھی ہیں؟
بلاشبہ، مذہب کے نام پر جاری عسکریت پسندی چار دہائیوں سے ملک میں پھیلی ہوئی ہے، جوافغان جہاد کے بعد اپنی سب سے نمایاں شکل اختیار کرچکی ہے۔ افغان جہاد کو ہماری ریاستی سرپرستی میں امریکی و سعودی تعاون حاصل رہا، جو سرخ ریچھ کو افغانستان سے نکالنے میں تو کامیاب ہوا مگر اس نے پاکستان میں بنیاد پرستی کے بہت گہرے بیج بوئے۔ جہادی نظریہ جو شاید سرد جنگ کا آخری حربہ تھا، یہاں پروان چڑھا اور اس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان کو اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کا موقع ملا۔ تاہم افغان جہاد کے دوران ریاستی سرپرستی میں پنپنے والے گروہوں میں سے بعض گروہ اپنی ریاست کو ہڑپنے پر امادہ ہوگئے۔ ٹی ٹی پی انہی کا پیدا کردہ ایک گروہ ہے جو شریعت اسلامی کی من چاہی تعبیر و تشریح کے ذریعے پاکستانی ریاست کو ناجائز ریاست اور جمہوری پارلیمانی نظام کو کفریہ نظام سمجھتا ہے، جس کا مقصد یہاں مسلح جدوجہد کے ذریعے ایک خاص طرح کے اسلامی نظام کا نفاذ یقینی بنانا ہے، جسے روایت پسند، قدیم افکار وخیالات کے حامل علماء و مفکرین اور جدیدیت پسند علماء و مفکرین میں سے کسی کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔
اگر ریاست نے مذہبی عسکریت پسندی پر ہمیشہ کے لیے دروازے بند کرنے کی کوشش کرنے کا پھر فیصلہ کرلیا ہے، تو یہ ایک خوش آئند بات ہے، مگر جیسا کہ اوپر کہا گیا، کیا متشدد انتہا پسند تنظیمیں علماء کی بات سنیں گی اور ہتھیار ڈالنے پر امادہ ہونگی؟ میرے خیال میں ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے بیانیے کو توڑنے کے لیے جس سطح کے علمی و منطقی دلائل سے بھرپور بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے، علماء کی اکثریت اس صلاحیت سے محروم ہے۔ ریاست کے زیر انتظام بنائے گئے بیانیوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ریاست کی نظر میں مقبول علماء کرام میں سے کوئی اپنے علمی دلائل کے ساتھ عسکریت پسند مفتیان کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، پیغام پاکستان اور دیگر فتاویٰ جات میں درج حوالوں کی جو تفہیم عسکریت پسند مفتیان بیان کرتے ہیں، اس تفہیم کا ابطال ضروری ہے مگر ہم ہر بار اس کا ابطال کرنے کی بجائے اس کی ایسی تعبیر پیش کرتے ہیں جسے عسکریت پسند ایک فکری مغالطہ قرار دے کر اس سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔ جو لوگ یہ کام انجام دے سکتے ہیں، بدقسمتی سے ریاست کے ہاں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مذہبی بنیادوں پر موجود عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ذاتی نوعیت کی چند ایک کوششیں بہت قابل قدر ہیں، جن کے دورس اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے جہاد، تکفیر اور خروج کے عنوان پر باقاعدہ علمی مباحث قائم کیں اور عسکریت پسندوں کے نمائندوں کو بلا کر ان کا موقف جاننے اور ان کے ساتھ مکالمے کی فضا قائم کی، جس کے رد عمل میں الشریعہ اکادمی کی قیادت کو عسکریت پسندوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر ان مباحثوں نے مذہبی حلقوں میں خاصا اثر دکھایا اور مذہبی اداروں سے جڑے بہت سے نواجوان عسکریت پسندوں کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہے۔ ریاست اگر پیغام پاکستان پر خرچ ہونے والے پیسوں میں سے نصف پیسوں کو بھی مناسب انداز میں جہاد، خروج اور تکفیر جیسے عنوانات پر ہونے والی علمی مباحث کو آگے بڑھانے کی عملی کوشش کرتی تو شاید آج ایک بار پھر ہمیں اس عفریت کا سامنا نہ ہوتا۔
ماضی میں ریاست نے خود بنیاد پرستی کو فروغ دینے اوراپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی کارڈ کا غلط استعمال کرنے کی غلطی کی ہے۔ جہاں اس غلطی سے باقاعدہ توبہ کرنے اور اسے دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے، وہیں عسکریت پسندوں کے مقابل ایک متحرک، کارگر اور موثر بیانہ بنانے کے لیے محض فتاویٰ جات کا حصول اور ان کی اشاعت کافی نہیں بلکہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ مضبوط علمی و منطقی انداز میں ایسا بیانیہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو کم وقت میں زیادہ فوائد دینے کے حامل ہوں۔