چین کی سہولت کاری کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ خطے کی سیاست کے لئے بہت اہم خبر ہے۔ مشرق وسطی کی سیاست میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تلخی سے پاکستان بھی متاثر ہوتا تھا۔ گو کہ تعلقات کی بحالی اپنی جگہ ایک مثبت بات ہے مگر پاکستان کے لئے یہ نوشتہ دیوار بھی ہے کہ اس ثالثی کے لئے چین نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ گو کہ چین کے ساتھ پاکستان کے گہرے تزویراتی تعلقات ہیں مگر سعودی عرب کے فرنٹ پر چین کے اس فعال کردار سے پاکستان کی خطے کی سیاست اہمیت مزید کم ہوگی۔
پاکستان اس وقت سنگین معاشی مسائل کا شکار ہے اور ماضی کے برعکس پاکستان کو اس گھمبیر معاشی بحران سے نکالنے کے لئے سعودی عرب نے روایتی گرم جوشی نہیں دکھائی۔ سعودی حکام نے پاکستان کو واضح طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرنے کا کہا ہے۔ ماضی میں سعودی عرب کی بعض دفاعی ضروریات اور خطے کی سیاست میں ایران کے کردار کے تناظر میں پاکستان کی ایک مسلمہ اہمیت رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان تیزی سے یہ اہمیت کھو رہا ہے۔ یمن کے مسئلہ پر پاکستان کی حکومت سعودی عرب کی توقعات پر پورا نہیں اتری جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری بھی دیکھنے میں آئی۔ بعد ازاں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے ترکی و ملائشیا کے ساتھ ایک نئے بلاک بنانے کے خواب نے بھی سعودی ولی عہد کے جذبات کو بھڑکایا۔
اب چین کی سفارتکاری کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی سے پاکستان کی اہمیت مزید کم ہوگی۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان میں مرکزی اثر و رسوخ کھو چکا ہے جہاں پہلے قطر اور اب متحدہ عرب امارات نے ایک فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ معاشی مشکلات میں بری طرح گھرا ہوا پاکستان سعودی عرب کے لئے مزید غیر متعلق ہونے جا رہا ہے۔ ایران کے فرنٹ پر اگر سعودی حکومت کو کچھ قرار ملتا ہے تو اس سے یمن اور خطے کے دوسرے ممالک میں بھی تناؤ کم ہوگا۔ پاکستان کے کسی مرکزی کردار کے بغیر ہی سعودی سیکورٹی کے بڑے مسائل حل ہونا شروع ہوں گے تو سعودی عرب کے لئے پاکستان کی اہمیت گھٹنا شروع ہو جائے گی۔ اگلے مرحلے پر یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ سعودی افواج کی تربیت اور متعلقہ تکنیکی امور میں معاونت کے لئے سعودی عرب ایک طرف چین اور دوسری طرف انڈیا کے ساتھ مل کر کچھ اقدامات اٹھائے گا۔
ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں پاکستان کسی طور پر سعودی عرب سے گلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی خطیر رقوم اور امداد کو پاکستان میں عوامی فلاح و بہبود کے کسی قابل ذکر پراجیکٹ اور انڈسٹری میں لگانے کے بجائے جس انداز میں ضائع کیا گیا، اس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔