ترک صدر رجب طیب اردوان ان دنوں تین خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں جن میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ پیر کے روز صدر اردوان سعودی عرب پہنچے جہاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں سربراہوں نے دو طرفہ تعلقات کے مختلف پہلووں پر مذاکرات کیے اور ان میں بہتری کے امکانات پر غور و خوض کیا۔ بعدازاں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے متعدد معاشی و اقتصادی منصوبوں پر دستخط کیے گئے جن کے مطابق سعودی عرب ترکی میں توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ آج بروز منگل ترک صدر قطر کا دورہ کریں گے اور کل کے دن متحدہ عرب امارات میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔
اس سے قبل ترک صدر سے جون میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید بن نیہان استنبول میں ملاقات کر چکے ہیں اور رواں سال کے شروع میں دونوں ممالک ک درمیان جامع اقتصادی شراکت کا معاہدہ طے پایا تھا جس پر دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کی پچاسویں سالگرہ پر جون میں باضابطہ دستخط کیے گئے۔
دوسری طرف سویڈن کی ناٹو میں شمولیت کے حوالے سے بھی صدر رجب طیب اردوان نے اپنے دیرینہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے جس سے ایک طرف ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے امکانات روشن ہوئے ہیں وہاں امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
ترکی کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات پر مبصرین اور دیگر ممالک حیران ہیں۔ لیکن ترکی کی موجودہ معاشی صورتِ حال کو دیکھا جائے تو ان کے یہ اقدامات اور خلیجی ممالک سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں اچنبھے کی بات نہیں ہیں۔ سویڈن کی ناٹو میں شمولیت کی مخالفت اور روس کے ساتھ قربتوں کی وجہ سے ترکی کو یورپی یونین کی جانب سے سرد مہری کا سامنا رہا ہے اور یہ ممالک ترکی میں کسی بھی قسم کی معاشی سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔
اپنے گذشتہ دورِ حکومت میں کیے گئے چند فیصلوں نے ترک معیشت اور ترک لیرا پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ رہی سہی کسر زلزلے جیسی قدرتی آفت نے پوری کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ترک صدر کو انتہائی مضبوط اپوزیشن کا سامنا رہا اور وہ بہت مشکل سے اپنا منصب برقرار رکھ پائے ہیں۔ شرح سود میں اضافے سے انکار اور ویزا پالیسی اور شہریت کے حصول میں کی گئی نرمی پر انہیں متعدد حلقوں کی جانب سے مخالفت اور تنقید کا سامنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے نئے دور میں وہ اپنے خارجہ تعلقات میں بہتری پر توجہ مرکوز کرتے نظر آتے ہیں۔
اندرونی طور پر معاشی اصلاحات کے لیے بڑھتا ہوا دباو جہاں انہیں اپنے گذشتہ فیصلوں پر نظرِ ثانی پر مجبور کر رہا ہے وہیں یورپ اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کے نئے امکانات کی تلاش ان کے لیے اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اگر ان کا حالیہ دورہ کامیاب رہا جیسا کہ مبصرین کا ماننا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یورپی یونین اور ناٹو اتحادیوں کا اعتماد جیت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ترک معیشت میں بہتری کے واضح امکانات پیدا ہوں گے اور ترک صدر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔