۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کی تعبیر یک رنگ اور متفقہ نہیں ہو سکتی، اس میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، خصوصاً جب تنازعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں۔ تاہم تاریخ کے ایک ایسے فہم کی ضرورت ہوتی ہے جس سے تہذیب کا سفر ماضی کی تاریخی بحثوں میں الجھ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سے کچھ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذریت اسماعیل کو دیے گئے سیاسی اقتدار کی قیادت کے لیے قریش کی امتیازی حیثیت تو بیان فرمائی تھی، لیکن اپنے خاندان یعنی بنو ہاشم کی کوئی خصوصی حیثیت بیان نہیں فرمائی۔ آپ کے قرب وفات کے زمانے میں سیدنا عباس اور سیدنا علی کے مابین اس پر گفتگو ہوئی کہ کیا ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ضمن میں کوئی تصریح کروا لینی چاہیے یا نہیں کہ اس معاملے میں اہل بیت کا کردار کیا ہوگا؟ لیکن یہی طے ہوا کہ اس معاملے کا مبہم رہنا ہی بہتر ہے اور حالات کو خود ہی اپنا ایک رخ بنانے دینا چاہیے۔
صحابہ میں سے بعض، مثلاً سلمان فارسیؓ اور عمار بن یاسرؓ کی رائے یہ تھی کہ اقتدار حضور کے خاندان کے لیے ہی مخصوص ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ امت ان کو نظرانداز کر کے ایک طرح سے ان کی ناقدری کر رہی ہے۔ لیکن قریش کا عمومی رجحان، جیسا کہ سیدنا عمرؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ کو بتایا، یہ تھا کہ اقتدار اگر قریش میں رہنا ہے تو پھر بنو ہاشم میں خلافت کو نہیں جانا چاہیے، کیونکہ نبوت اور خلافت دونوں کے ایک خاندان میں جمع ہو جانے سے سیادت غیر معمولی طور پر ایک ہی جگہ مرتکز ہو جائے گی۔
اب دیکھنا یہ چاہیے کہ اس صورت حال کو اہل بیت کرام نے کیسے دیکھا اور اپنے لیے کیا لائحہ عمل متعین کیا۔ اسی اسوے میں ہمارے لیے راہنمائی ہے اور اسی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے فہم کے مطابق سیاسی اقتدار کے باب میں اہل بیت کرام کے مجموعی اسوے کو درج ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے:
1- اگر امت کی سیاسی عصبیت کی تائید حاصل نہ ہو تو سیادت کی کشمکش میں فریق نہ بنا جائے بلکہ اولو الامر کی خیر خواہی اور معاونت کا طریقہ اختیار کیا جائے اور حسب موقع وضرورت مشورہ یا تنقید کی صورت میں امور کی انجام دہی میں ان کی مدد کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے عہد میں پیش فرمایا۔
2- سیاسی حالات بگاڑ اور انتشار کا شکار ہوں اور زمام کار کو سنبھالنے کا تقاضا کر رہے ہوں تو کنارہ کشی اختیار نہ کی جائے، بلکہ اپنی بساط اور فہم کے مطابق مسلمانوں کی سیاسی قوت کو دوبارہ مجتمع کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا علی نے اپنے عہد خلافت میں پیش کیا، اگرچہ اس میں انھیں چند در چند مشکلات درپیش رہیں اور ان کی حکمت عملی پر کچھ سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔
3- سیاسی عصبیت کے میدان میں پلڑا دوسری جانب جھک چکا ہو اور قتل وقتال کا سلسلہ موقوف ہو جانے کے بعد ازسرنو بیدار ہونے کے لیے آمادہ ہو تو مسلمانوں کی وحدت اور اجتماع کو ترجیح دی جائے اور باوقار شرائط کے ساتھ صلح کا امکان موجود ہو تو اسے اختیار کر کے اقتدار سے دستبرداری قبول کر لی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسنؓ نے پیش فرمایا۔
4- اگر کسی مخصوص علاقے میں، محدود سطح کی ہی سہی، سیاسی عصبیت میسر ہو اور علیٰ منہاج النبوۃ، سیاست واقتدار کا نمونہ دوبارہ قائم کرنے کے امکانات بظاہر دکھائی دے رہے ہوں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسینؒ نے اہل کوفہ کی طرف سے دعوت موصول ہونے پر اختیار کیا۔
5- اگر سیاسی عصبیت کا مضمحل ہونا واضح ہو جائے تو بے فائدہ ٹکراو کے راستے پر بڑھتے چلے جانے کے بجائے مصالحت کے امکان پر دوبارہ غور کیا جائے، لیکن اس کا طریقہ اور شرائط باوقار ہونے کو بھی اہم سمجھا جائے۔ اگر باوقار صلح کا آپشن نہ ہو تو جان کی قربانی پیش کر دی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسین اور ان کے اہل خانہ نے کربلا میں پیش کیا۔
6- سیاسی عصبیت کے امکانات محدود تر ہو جائیں اور ایسی کسی بھی کوشش کا، امت کے افتراق کو بڑھانے پر منتج ہو جانا یقینی ہو تو سیاسی کشمکش سے مکمل طور پر گریز کر کے علم، تقویٰ اور حسن کردار کے میدان میں امت کی راہنمائی تک خود کو محدود کر لیا جائے اور ارباب اقتدار کے باب میں کلمہ حق کہنے کی سنت کو زندہ رکھا جائے۔ یہ اسوہ واقعہ کربلا کے بعد ائمہ اہل بیت نے عموماً اختیار فرمایا۔
اس بحث کو ایک بڑے تہذیبی سوال سے جڑے ہوئے مختلف امکانات کے تناظر میں دیکھا جائے اور اس پہلو پر نظر رکھی جائے کہ اہل بیت کرام نے مختلف احوال میں ہمارے لیے کیا اسوہ چھوڑا ہے تو یہی بحث فرقہ وارانہ انداز کی بحث وجدال سے اٹھ کر ہمارے لیے ایک بڑی تہذیبی راہنمائی کا ماخذ بن سکتی ہے۔