16 اگست 2023ء کو فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ایک مسیحی بستی – عیسیٰ نگر – میں گمراہوں کے ایک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجا گھر (جنھیں عربی میں بِیعَة کہتے ہیں) اور مسیحی آبادی کے مکانات جلائے اور برباد کیے۔ یہ جان کر مجھے ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک انسان کی حیثیت سے نہایت گہرا دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا۔
مسلمان ہونے کے ناطے قرآن شریف پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ قرآن شریف میں گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں کے تحفظ کا بالخصوص حکم دیا گیا ہے (سورۃ الحج (22)، آیت 40) اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے (سورۃ الحج (22)، آیت 39)۔ ان آیات کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً ان ظالموں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی مدد کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا پیغمبر نہ ماننے والا اور ان کے ساتھ دلی عقیدت نہ رکھنے والا کوئی شخص خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کا قرآن شریف میں کثرت سے (34 بار) ذکر ہے اور ایک سورت انھی کے نام پر (سورۃ 19) ہے۔
مسلمانوں کی مسیحیوں سے قربت کا اظہار بھی قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے: وَلَتَجِدَنَّ أَقۡرَبَهُم مَّوَدَّةٗ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّا نَصَٰرَىٰ (سورۃ المآئدہ (5)، آیت 28)۔ ترجمہ: ” تم دیکھوگے کہ مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔”
جب مکہ میں مسلمانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے، تو قرآن کریم (سورۃ النحل (16)، آیت 41 اور سورہ العنکبوت (21)، آیت 56) میں مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنے کےلیے کہا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کی ہجرت کےلیے حبشہ کی سرزمین پسند کی اور فرمایا کہ وہاں کا مسیحی حکمران انصاف کرنے والا اور مظلوموں کی مدد کرنے والا ہے(سیرت ابن اسحاق، ص 154)۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور داماد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور بعد میں رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئی صحابہ نے حبشہ ہجرت کی اور وہاں کے مسیحی بادشاہ(نجاشی) ، اصحمہ ، نے قریشِ مکہ کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو پناہ دی اور انھیں اپنے مذہب اسلام پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی۔ اور روم و فارس کی بڑی طاقتوں کو شکست دینے کے باوجود صحابہ نے حبشہ پر حملہ نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حبشہ پر حملہ کرنے کی ممانعت کی تھی (بدایۃ المجتہد، ج2، ص 144)۔ مسلمانوں کو پناہ دینے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک پر رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کا شکریہ ادا کرنے کےلیے خصوصی مکتوب بھی لکھا تھا (طبقات ابن سعد، ج3، ص 16)۔
اور ایک مسیحی راہب بحیرا ہی تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے کی تائید کی (سیرت ابن اسحاق، ص53) اور جب رسول اللہ ﷺ نے پہلی وحی کا ذکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو وہ آپ کو اپنے رشتہ دار مسیحی عالم، ورقہ بن نوفل، کے پاس لے گئیں جنھوں نے آپ کو اطمینان دلایا کہ یہ جبریل علیہ السلام ہی کے ذریعے بھیجی گئی ہے۔ قربت کا یہ عالم تھا کہ مسیحی ورقہ نے حضور سے فرمایا کہ آپ کی قوم آپ کے خلاف ہوگی اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں آپ کا ساتھ دوں گا۔(سیرت ابن اسحاق، ص113)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یروشلم فتح کرنے کے بعد گئے اور جب ظہر کی نماز کا وقت آیا، آپ تو اس وقت چرچ آف دا ہولی سیپلکر (Church of the Holy Sepulchre) کا معائنہ کررہے تھے۔ مسیحیوں کے بشپ نے کہا کہ آپ یہاں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خدشے کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنے سے انکار کیا کہ کہیں بعد میں مسلمان اسے مسجد میں تبدیل نہ کرلیں۔ یہ تھا مسلمانوں اور مسیحیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی احترام کا مثالی کردار۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسیحیوں کو یہ ضمانتیں تحریری طور پر بھی دیں:
"یہ امان ہے جو اللہ کے بندے اور مسلمانوں کے حکمران عمر ]رضی اللہ عنہ[نے یروشلم کے لوگوں کو دی ہے۔ اس نے انھیں امان دی ہے، ان کی جانوں، ان کے اموال ، ان کے گرجا گھروں اور ان کی صلیبوں کےلیے۔۔۔ اور ان کے پورے مذہب کےلیے۔ ان کے گرجا گھروں میں مسلمانوں کو بسایا نہیں جائے گا اور نہ ہی انھیں نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کو، نہ ہی اس زمین کوجس پر وہ آباد ہیں، نہ ان کی صلیب کو اور نہ ہی ان کی جائیداد کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ "(تاریخ طبری، ج3، ص 609)
گرجا گھروں پر حملے کرنے والوں نے قرآن شریف کے صریح احکام، رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایات اور خلفاے راشدین کے روشن کردار کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی شریعت کی اس سنگین خلاف ورزی کو کسی بھی الزام، بدلے یا انتقام سے جواز نہیں دیا جاسکتا۔
نہ صرف یہ، بلکہ ایسا کرکےان لوگوں نے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کے آئین اور قانون کو بھی پامال کیا ہے۔ پاکستان کا پرچم بناتےوقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ پرچم کا ایک بڑا حصہ سفید رنگ کا ہو جو پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کی عکاسی اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی دفعہ 20 میں کسی مذہب کے ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کو بنیادی حقوق کا درجہ دیا گیا ہے اور اسی طرح مال اور جائیداد کی ملکیت بھی بنیادی حقوق میں شامل ہے (دفعات 23 اور 24)۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو آئینِ پاکستان کے بنیادی خدوخال طے کرنے کےلیے "قراردادِ مقاصد” منظور کی تھی۔ اس قرارداد کو آئینِ پاکستان کے دیباچے کے طور پر بھی شامل کیا گیا ہے اور بعد میں دفعہ 2-اے کے ذریعے اسے آئین کا مؤثر حصہ بھی بنایا گیا۔ اس قرارداد میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیرمسلموں کو اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عقیدہ رکھنے اور عمل پیرا ہونے کےلیے قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔ آئین کی دفعہ 5 کہتی ہے کہ آئین پر عمل کرنا سب کی ذمہ داری ہے اور دفعہ 6 نے آئین کی پامالی کو سنگین غداری میں شمار کیا ہے۔
مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295 اور 295-اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو نقصان پہنچانا جرم ہے اور کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر دس سال تک قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔
ناسمجھی کی انتہا یہ ہے کہ ‘اسلام’ جس کے مفہوم میں امن ہے اور جو اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ لوگوں سے ملتے وقت ان کےلیے سلامتی کی دعا (السلام علیکم) کیا کریں، اس مذہب کے چند ماننے والوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات پامال کرتے ہوئے اتنی وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کیا۔ کیا انھیں اپنے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی یاد نہیں رہا کہ ان غیر مسلموں پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف وہ (رسول اللہ ﷺ) خود قیامت کے دن اللہ کے سامنے مقدمہ پیش کریں گے؟ (سنن ابی داود، کتاب الخراج، حدیث رقم 3052) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے "بہترین اخلاق” (خلق عظیم) کا ذکر کیا ہے (سورۃ القلم (64)، آیت 4) اور خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ وہ اچھے اخلاق کی تکمیل کریں (موطا امام مالک، کتاب حسن الخلق، حدیث رقم 8)۔ پھر آپ پر ایمان کا دعوی کرنے والے ایسے ہوسکتے ہیں؟
مشہور صحابی حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے اصطخر (ایران) کے فتح کے موقع پر مسلمانوں سے کہا: "اپنے دین کی پہلی خصوصیت جو تم کھو بیٹھوگے وہ قابلِ بھروسہ ہونا ہے، اورجب تم یہ صفت کھو بیٹھوگے، تو پھر ہر روز کچھ نیا کھوتے جاؤگے” (تاریخ طبری، ج3، ص 176)۔
رسول اللہ ﷺ کے آخری خطبےمیں ، جو آپ نے 9 ذی الحجہ 10ھ (632ء)، کو عرفات کے مقام پر دیا تھا، آپ نے فرمایا : ” مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں۔” (مسند احمد،مسند ابی ہریرہ، حدیث رقم 8931)
مگر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کی نشاندہی قرآن مجید نے کی ہے جو ہر حد سے تجاوز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) خدائی کے مرتبے پر ہیں۔ (سورۃ العلق (96)، آیات 6-7)
ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، ان کی جانوں، اموال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنے والوں کو روکیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔