ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
ہمارے ہاں "پڑھے لکھے” مہربان بالعموم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو "مسخ شدہ" تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ پھر وہ مغربی کتب میں درج تاریخ کے تسلسل کو مثال کر پیش کرتے ہیں کہ دیکھیے وہ فلاں واقعہ کے متعلق یہ کہتے ہیں جب کہ ہمیں یہ ایک دوسری طرح بتایا جاتا ہے۔ یا پھر بعض سینئیر تاریخ دان اس طرف توجہ دلاتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری (پاکستان کی) تاریخ میں اشوک، چندر گپت موریہ اور چانکیہ وغیرہ کا تذکرہ ہی نہیں تو یہ کیسی کٹی پھٹی تاریخ بنا رکھی ہے ہم نے، وغیرہ۔
یہاں یہ دیکھ لینا مناسب ہے کہ تاریخ ہے کیا ، اس کا اسکوپ کیا ہوتا ہے اور کیا اس کو مسخ کیا جا سکتا ہے ۔
تاریخ محض واقعات، شخصیات یا مقامات سے متعلق کوئی دستاویز نہیں ہوتی اور نہ ہی ان تین کے علاوہ اس میں کوئی بات آفاقی سچائی ہوتی ہے۔
تاریخ یہ ہے کہ کسی بھی قوم یا گروہ کے لیے ان تین موضوعات کی کیا اہمیت ہے، وہ ان کو کس زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر خود کو اس تمام سلسلہ میں کہاں Place کرتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہؤا، تاریخ ایک Perspective کا نام ہے۔ یعنی، ایک ہی واقعہ کو کس نے کیسا پایا۔ مثلاً ۔۔۔۔۔ لاہور میں 12 جولائی 2005 کو بارش ہوئی۔ ڈیفنس میں مقیم ایک صاحب نے لکھا کہ شاندار موسم تھا اور بارش سے ہر شے نکھر گئی ہم دوست اس موقع پر جمع تھے اور خوب لطف رہا۔ یہ ایک شاندار دن تھا۔ دوسری جانب ایک اور صاحب جو شمالی لاہور کی کسی کچی بستی کے مکین تھے اسی دن ہونے والی بارش کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک ہولناک دن تھا، شدید بارش میں میرے مکان کی چھت گر گئی، بارش کا پانی گھر کے اندر آ گیا اور میرا سارا سامان تباہ ہو گیا۔ کیا آپ کہیں گے کہ پہلے یا دوسرے راوی میں سے کسی نے تاریخ کو مسخ کر دیا ؟ دونوں نے اس واقعہ کو اپنے حساب سے دیکھا، محسوس کیا اور اپنی یاداشت میں۔ محفوظ کر لیا۔
اس کے بعد اگلا اہم سوال، ہم اس تاریخ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ سے متعلق ہمیشہ یہ بات عام رہی ہے کہ بڑی قومیں اور بادشاہ وہ ہیں جنہوں نے عالی شان عمارات قائم کی جو ان کے شکوہ کی علامت اور بعد والوں کو ان کی شان و شوکت کی یاد ٹھہرتی ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالی کی اس بارے رائے بالکل مختلف ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ تو بالکل عبث کام ہے کیونکہ آپ نے کونسا ہمیشہ اس دنیا میں رہنا ہے۔
ہم جانتے ہیں مرنے کے بعد تو سب جمع جتھا عبرت اور تاسف کا سامان ہی بن کر رہ جاتا ہے یا پھر سیاحوں کے لیے گھومنے پھرنے کی ایک جگہ۔ خدا کا مقدمہ یہ ہے کہ آپ شان و شوکت کی ایسی "نشانیاں” بنانے میں وقت اور وسائل ضائع کرنے کے بجائے انہیں دوسرے انسانوں کی بھلائی کے کاموں میں صرف کریں۔ یہ بھی کہ جو کچھ آج آنکھوں کے سامنے موجود ہے اس کے حوالے سے یہ سوچیں کہ جو کل اتنے طاقتور تھے آج کہاں ہیں ؟ یعنی، محض اس میں الجھ کر نہ رہ جائیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے آغاز، انجام اور وجوہات کو بھی دیکھیں۔ تاریخ کو دیکھنے کا وہ زاویہ جو مذہب استعمال کرتا ہے معاصر طریقے سے بالکل مختلف ہے۔ مذہب کردار اور اخلاق کو عروج و زوال سے جوڑتا ہے اور سیکولر تاریخ اس کو علم و فن اور فتوحات سے خاص کرتی ہے۔
تاریخ کے سلسلہ میں سب سے اہم اور دورس بات یہ ہے کہ کوئی قوم اور گروہ تاریخ کے جاری عمل میں خود کو کہاں place کرتا ہے۔ جب ہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ محمد بن قاسم سے کیوں شروع کرتے ہیں ، اشوک یا اس سے پہلے سے کیوں نہیں جبکہ مصری تو فراعنہ کو بھی اپنے آباء میں گنتے ہیں یا ایسا ہی اہل فارس، ایران، کے لیے بھی کہا جاتا ہے تو دراصل یہ خلط مبحث کا موضوع بن جاتا ہے، تقابل کا نہیں۔
مصری آج سے ہزاروں سال پہلے بھی مصری تھے اور یہی بات ایرانیوں کے لیے درست ہے۔ پاکستانی تو آج سے 70 سال پہلے بھی پاکستانی نہیں تھے۔ پاکستان بنا تو وہ پاکستانی ہوئے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کیوں بنا اور اس کیوں کی تاویل کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ میں اپنے وجود کی جو تاویل دیکھتا ہے اس کے اظہار کے لیے اسے محمد بن قاسم سے شروع کرتا ہے۔ اس سکیم میں اشوک یا کوئی اور فٹ نہیں ہوتا۔ ان کے وارث واہگہ کے اس پار ہیں۔
اگر خدانخواستہ پاکستان نہ رہے تو پھر اسکی مندرجہ بالا تاویل بھی جاتی رہے گی اور محمد بن قاسم کا ذکر پس منظر میں چلا جائے گا۔ پھر معاملہ جغرافیہ سے جڑ جائے گا اور اس جغرافیہ کی مشترک تاریخ سے۔۔ پاکستان کا قیام جغرافیائی بنیاد یا نسلی بنیاد کی دین نہیں تھا اور اسی لیے اس کی تاریخ اس نقطہ نظر کو سامنے لاتی ہے جس کی وجہ سے جغرافیہ میں تبدیلی آئی۔ اس ضمن میں کسی قسم کی شرمندگی یا معذرت خواہانہ رویہ کی ہرگز ضرورت نہیں۔
تاریخ ایک تعارف ہے ایک رائے ہے ایک پوزیشن ہے۔ آپ اسے "مسخ” جیسے الفاظ سے موسوم نہیں کر سکتے۔ تاہم اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں تو تواریخ کے تقابل کو اپنی عادت بنائیں تاکہ کسی قوم کی اپنے بارے رائے، اسکے عمل کی اس سے مطابقت اور اس کے حریفوں کی اس کے بارے رائے کو جان سکیں اور اس طرح انسانی سفر کی سمت اور اتار چڑھاؤ کا درست تجزیہ کر سکیں۔