دوستی اور تعلق کا فلسفہ انسانوں کے بجائے ان درختوں سے سیکھیے۔ انسان تو بڑی عجلت میں فیصلے کرنے والا اور حساس ہوتا ہے۔ ادھر توقعات میں کچھ کمی بیشی ہوئی اور ادھر اس آبگینے کو ٹھیس لگتی ہے اور یہ قطع تعلقی کر کے پلٹ کر نہ آنے والی راہوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔
تعلقات جب بھی بنتے ہیں تو ان میں قربت اور گرم جوشی کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ابتدا میں لگتا ہے کہ بس پوری زندگی یہ تعلق ایسے ہی قائم رہے گا۔ بالکل درخت کے اس تنے کی طرح جو ابھی شاخوں کی تقسیم کے تجربے سے دوچار نہیں ہوا۔ زندگی کی چال آگے بڑھتی ہے تو راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ تعلق کا تقاضا ہے کہ جب راہیں جدا ہونا ضروری ہو جائیں اس وقت بھی تعلق کی اساس اور بنیاد کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے خلاف سازش اور حسد سے آپ کسی کا راستہ نہیں روک سکتے مگر اپنی نشوونما کو نقصان ضرور پہنچا سکتے ہیں۔
یہ بھی تو ممکن ہے کہ درخت کے اس تنے کی طرح زندگی کے کسی موڑ پر آپ پھر آ ملیں اور تعلق وہاں ہی سے دوبارہ شروع ہو جائے۔ اور پھر یہ کہ کچھ عرصے کے بعد وقت کے فیصلے آپ کو پھر سے جدا کریں اور آگے چل کر ایک بار زندگی کی دوڑ اور مسافت میں دور کہیں بہت دور آپ دوبارہ آ ملیں۔ زندگی کا یہی سبق ہے کہ تعلق کو بنانا،سنبھالنا اور پالنا سیکھیں۔ جذباتیت اور حساسیت کا شکار ہو کر تعلق کو توڑیں مت۔ ایک کم زور ڈوری سے بندھا تعلق بھی کسی تناور اور مضبوط شاخ کی طرح آپ کو زمانے کی دھوپ میں چھاؤں فراہم کر سکتا ہے۔
شکوے شکایت چھوڑ کر زندگی کے جس موڑ پر کوئی تعلق والا مل جائے اسے خندہ پیشانی اور خوش دلی سے ملیں۔ دل صاف رکھیں اور زندگی کا لطف اٹھائیں!