(حصہ اوّل)
کسی بھی شخص کی تحریر یا تخلیقی کام کو اس کی اجازت یا کم از کم مصنف کی طرف منسوب کیے بغیر نقل اور شائع کرنا نہ صرف قانونی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس پر اخلاقی لحاظ سے بھی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریروں کو ان کی طرف منسوب کیے بغیر یا پھر اپنے نام سے شئیر کرنا ہمارے ہاں معمول کی کارروائی بن چکی ہے۔ اس حوالے سے چند بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
کاپی رائیٹ کے قوانین کا اطلاق ہر اس تخلیقی شے پر ہوتا ہے جسے لٹریری، ڈرامیٹک، آرٹسٹک وغیرہ کہا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ کمپیوٹر پروگرامز بھی کاپی رائیٹ کے قوانین کے تحت قانونی تحفظ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ کسی بھی کام کے کاپی رائیٹ کے دائرہ کار میں آنے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ کام بہت خاص کوالٹی کا حامل ہے یا نہیں۔ کوالٹی کے بجائے کام کی اوریجنلٹی اہم ہے اور اس کے لیے بھی بس اتنا ہی کافی ہے کہ کام کو تخلیق کرنے والے شخص نے اس پر اپنا کچھ ذہن، وقت یا سرمایہ صرف کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں کسی کی تحریر بالکل بنیادی یا فضول لگے مگر یہ تحریر اگر لکھنے والے کا اپنے الفاظ میں اظہار ہے تو یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر آپ پہلے سے دست یاب ڈیٹا مثلا ٹیلی فون ڈائریکٹری کو لے کر اسے کسی نئے فارمیٹ میں ڈھال کر مفید ڈیٹا بیس بنا دیتے ہیں تو اسے اس بات سے قطع نظر کہ ڈیٹا کی تخلیق آپ کا کام نہیں ہے کاپی رائیٹ کے تحت تحفظ دیا جائے گا۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ کاپی رائیٹ کا اطلاق آئیڈیا کے بجائے اظہار پر ہوتا ہے۔ اس فرق کو کاپی رائیٹ کے قانون کی زبان میں Idea-Expression Dichotomy کہا جاتا ہے۔ اس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ کاپی رائیٹ کے قوانین اسی وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے اظہار (یعنی الفاظ و بیان) کو محض کاپی کر لے اور خود اسے شائع کرنا شروع کر دے۔ اگر آپ کسی کتاب یا ناول کے مرکزی خیال کو پڑھ کر اسی مرکزی خیال کے اردگرد خود ایک ناول لکھ دیتے ہیں تو یہ کاپی رائیٹ کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ کسی کے خیال یا آئیڈیا کو چوری کرنا پلیجرازم کے زمرے میں تو آتا ہے مگر محض کسی کے خیال کو استعمال کرنے سے کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی نہیں بنتی۔
کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی اس وقت بھی ہوتی ہے جب آپ کسی شخص کے کام کو اس کے نام کے ساتھ مگر اس کی منظوری کے بغیر شائع کرنا شروع کر دیں۔ کاپی رائیٹ کے قوانین کا بڑا حصہ مصنفین و حقوق کی ملکیت رکھنے والے افراد و اداروں کے معاشی مفادات کے تحفظ سے متعلق ہے۔ سو کاپی رائیٹ کے قانون کے تحت کوئی یہ کہ کر جان نہیں چھڑوا سکتا کہ جس کام کو شائع کیا جا رہا ہے اس کے اصل مصنف یا ناشر کا نام و انتساب پوری طرح دیا گیا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے کسی بھی طریقے سے دوسروں کا کام بغیر اجازت شائع کیا جا رہا ہے تو کاپی رائیٹ کے قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ شائع کرنے کی اصطلاح کا مفہوم بھی وسیع تر ہے اور اس میں روایتی معنوں میں شائع کرنے یعنی ہارڈ کاپی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے کام کو دست یاب کرنا بھی شامل ہے۔ سو کسی کتاب کی ڈیجیٹل کاپیاں بنا کر اسے وسیع پیمانے پر پھیلانا کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی ہے۔ محدود تعداد میں ایسی کاپیاں تیار کرنے کا جواز موجود ہے کہ جن کام مقصد منافع کمانا نہ ہو اور جن سے کاپی رائیٹ کے مالک کی جائز کاروباری توقعات کا استحصال نہ ہوتا ہو۔
کاپی رائیٹ کا حق انٹیلیکچول پراپرٹی کی دیگر اقسام کی طرح ہمیشہ کے لیے نہیں قائم رہتا۔ کچھ استثنائی صورتوں اور تفصیلات کو چھوڑ کر کاپی رائیٹ مصنف و حقوق کے مالک کی زندگی کے دوران اور اس کے بعد پچاس سال تک قائم رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مصنف زندہ ہے تو اس کی زندگی کے دوران کاپی رائیٹ کا حق باقی رہے گا۔ مصنف کی وفات کے بعد بھی یہ حق مصنف کے ترکہ کے طور پر پچاس سال تک باقی رہتا ہے۔ مثال کے طور پر امجد اسلام امجد کے انتقال کے بعد ان کے کام سے متعلق کاپی رائیٹس کے حقوق اب ان کے ورثاکے پاس ہوں گے اور ایسا بعد از وفات پچاس سال تک رہے گا۔ وفات کے پچاس سال بعد کاپی رائیٹ کا حق ختم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی شخص اس کام کو شائع کر سکتا ہے یا پھر استعمال کی دیگر صورتوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کی شاعری اب کاپی رائیٹ کے مرحلے سے گزر چکی ہے کیوں کہ غالب کی وفات کو پچاس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔
یہاں پر دو باتیں ملحوظ خاطر رہنی چاہئیں۔ اول تو یہ کہ مصنف کے کاپی رائیٹ کے حق کے خاتمے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ کوئی دوسرا شخص اب اس تحریر یا کام کو اپنی طرف منسوب کر کے استعمال کر سکتا ہے۔ مصنف کا انتساب کا حق کاپی رائیٹ کے حق سے علیحدہ بھی وجود رکھتا ہے جسے مورل رائیٹ کہا جاتا ہے۔کاپی رائیٹ کے حق کے خاتمے کا یہ مطلب ہے کہ مصنف کے نام کے ساتھ اب بلا اجازت اور رائلٹی ادا کیے بغیر آپ اس کام کو شائع کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بسا اوقات مصنف کے کاپی رائیٹ کو فروخت کر دیا جاتا ہے اور کاپی رائیٹ کا حق کسی ناشر کے پاس ہوتا ہے۔ کاپی رائیٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہ ناشر اگر خاص ترتیب ،اہتمام اور ڈیزائن وغیرہ سے کسی کتاب کو شائع کرتا ہے تو اس کے متن کا کاپی رائیٹ تو ختم ہو چکا ہے مگر ناشر کا اپنا کاپی رائیٹ اس ترتیب اور ڈیزائن وغیرہ کی وجہ سے وجود میں آ چکا ہوتا ہے۔ سو ایسے کام کو شائع کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ صرف متن کا استعمال پبلک ڈومین میں ہے نا کہ ناشر کے اضافی حقوق بھی!
کاپی رائیٹ کے قانون کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ یہ کسی مصنف کے بنیادی کام کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کام کی بنیاد پر کیے جانے والے بہت سے ثانوی کاموں کے تحفظ کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی مصنف کے تحریر کردہ ناول کی بنیاد پر اگر آپ ڈرامہ یا فلم بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو مصنف کی اجازت درکار ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی کام کا ترجمہ کرنے کا ارادہ ہے تو بھی اجازت درکار ہوگی۔ عموما اس قسم کی اجازت کے لیے مصنف یا کاپی رائیٹ کے حق کے مالک کو رائلٹی کی صورت میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ بعض صورتوں میں مصنفین مالی معاوضہ نہیں طلب کرتے مگر پھر بھی ان کی اجازت قانونی لحاظ سے ضروری ہے۔
کاپی رائیٹ کے حوالے سے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تحریر کے اختصار یا طوالت اور فارمیٹ وغیرہ سے یہ حق ختم یا کم نہیں ہوتا۔ روایتی طور پر کتابیں،مسودات، پینٹنگز، میوزک کمپوزیشنز، تصاویر،پرفارمنگ آرٹ وغیرہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر اور اس قسم کے دیگر مواد پر کاپی رائیٹ کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کسی صحت افزا مقام کی ویڈیو بنا کر اس کے بارے میں چند تعارفی الفاظ کہے ہیں تو آپ کا یہ کام کاپی رائیٹ کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بے دھڑک دوسروں کی تحریروں اور کام کو بلا اجازت استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عام لوگ اس قسم کے استعمال کو روکنے کے لیے قانونی راستہ بوجوہ اختیار نہیں کرتے مگر قانونی لحاظ سے یہ درست نہیں ہے۔ کسی کی تحریر کو محض منقول لکھ کر آگے چلا دینے سے بھی اس کی گنجائش نہیں نکلتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے کام کو شئیر کرنے کا آپشن دے رکھا ہے تو یہ اس کی طرف سے اجازت متصور ہوگی اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اس سے دوبارہ پوچھے بغیر اس کام کو اسی شخص کے نام سے شئیر کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کسی کام کی کاپی بنانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ جب آپ کوئی ڈیجیٹل کتاب یا سافٹ وئیر قیمت ادا کر کے خریدتے ہیں تو آپ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں نے اس کام کو خرید لیا ہے سو اب اس کے استعمال یا آگے کسی کو دینے کا حق مجھے حاصل ہے۔ اکثر اوقات یہ خرید و فروخت کا معاملہ ہوتا ہی نہیں بلکہ آپ کو اس کتاب یا سافٹ وئیر کا صرف لائسنس دیا جاتا ہے۔ یہ لائسنس مختلف نوعیت کی پیچیدہ شرائط کے ساتھ دیا گیا ہوتا ہے جنہیں ایک کلک کے ساتھ آپ قبول کر چکے ہوتے ہیں۔ ان شرائط میں یہ شامل ہوتا ہے کہ آپ اس کام کو صرف اپنے ذاتی استعمال میں لائیں گے اور fair use کے اصول کے تحت ہی استعمال کریں گے۔ اس قسم کے کام کی مزید کاپیاں تیار کر کے انہیں آگے پھیلانا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔