اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی اور حماس کے اثر و نفوذ والے علاقوں پر سخت پابندیوں’ گرفتاریوں اور تشدد کے متعدد واقعات کے بعد حماس کی طرف سے اسرائیل پر غیر معمولی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حماس کی طرف سے ان غیر معمولی اور بڑے پیمانے پر کی جانے کارروائیوں کے بارے میں عام طور پر یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ماضی کی طرح یہ بھی ایک ردعمل ہے۔ حماس کی ان کاروائیوں کو ایران کی پشت پناہی اور حمایت کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
جو مبصرین مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں ان کے لئے حماس کے حالیہ میزائل حملوں کی مندرجہ بالا توجیہات سادہ لوحی پر مبنی تجزیوں کا نتیجہ ہیں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملے اور معاشی پابندیوں کی ایک طویل داستان ہے اور اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز طویل عرصے سے حماس کے علاقوں میں عسکری کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ حماس ہمیشہ سے ان کاروائیوں کا کنٹرولڈ جواب دیتی ہے کیونکہ اسے بہرحال یہ اندازہ ہے کہ ایک حد سے زیادہ تناؤ کے نتیجے میں اسرائیل کا تشدد اور من مانی مزید بڑھ جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حماس کی طرف سے بڑے پیمانے پر ایسی منظم کارروائیوں کا کیا جانا جن کے نتیجے میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوجائیں، ایک غیر معمولی قدم ہے۔
اس غیر معمولی قدم کو خطے کی سیاسی حرکیات کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسے محض ایرانی حمایت سے اسرائیل کے خلاف حماس کی معمول کی کاروائی سمجھا جانا درست نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ایران اس وقت خطے میں کسی بڑے مس ایڈونچر میں نہ تو دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ مشکل معاشی حالات، یمن و شام کی جنگ کے اثرات اور بین الاقوامی پابندیوں کے مجموعی پریشر کے تحت ایران نے پہلے ہی خطے میں اپنے سب سے بڑے حریف سعودی عرب کے ساتھ سفارتی چینل کو از سر نو استوار کر لیا ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران مشرق وسطی میں ہونے والی یہ سب سے بڑی سفارتی پیش رفت تھی۔ یہ پیش رفت ایرانی قیادت اور محمد بن سلمان کے درمیان سفارتکاری کا براہ راست نتیجہ تھی جسے چین سمیت بعض دیگر ممالک کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ ان حالات میں ایران کے لئے یہ بالکل بھی سود مند نہیں کہ وہ خطے میں ایک ایسے لڑائی کا حصہ بن جائے جس کے نتیجے میں اس کے تعلقات سعودی عرب سمیت خطے کے دوسرے ممالک سے ایک بار پھر بگڑ جائیں۔ سو یہ سمجھنا کہ حماس نے ایران کی پشت پناہی سے اسرائیل پر حملہ کر دیا ہے کسی صورت میں بھی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ البتہ ماضی کی طویل روایت کے عین مطابق ایرانی حکومت اور ایرانی میڈیا حماس کے حملے سے پیدا ہونے والے صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے سرگرم ہو گیا ہے۔
دوسری طرف مشرق وسطی کے تقریبا تمام ممالک نے اسرائیل کے ساتھ یا تو سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں یا پھر سعودی عرب کی طرح سفارتی چینل کو کھلا گیا ہے تاکہ مناسب وقت ہر اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کا اعلان کر دیا جائے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس بارے میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا ہے۔ سعودی حکومت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے کسی نہ کسی شکل میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔ سعودی عرب کے ایران اور اسرائیل کے ساتھ بیک وقت تعلقات کی نارملائزیشن کی ان کوششوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ خطے میں ابھرنے والی حالیہ ٹینشن کا ان تینوں ممالک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ لڑائی کا اصل بینیفشری کون ہوگا؟ اس سوال کا جائزہ لینے کے لئے یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر مشرق وسطی میں سعودی عرب و ایران اور سعودی عرب و اسرائیل کسی فریم ورک کے تحت تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرتے ہیں تو اس سے کس ملک کی اہمیت کم ہوگی اور اس کے مفادات کو زک پہنچے گی؟ ظاہر ہے امریکہ کے علاوہ دوسرا کوئی ملک بھی ایسا نہیں جو مشرق وسطی کے امن پراسس کے نتیجے میں سب سے زیادہ غیر متعلق ہو جائے گا۔ امریکہ کی طویل المعیاد مشرق وسطی پالیسی کا محور یہ رہا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے خطرے کو فارن پالیسی کارڈ کے طور پر استعمال کر کے سعودی عرب کو اپنے زیراثر رکھے۔ اسی طرح امریکہ نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو بنیاد بنا کر خطے میں اسرائیل کو ہمیشہ اپنا حلیف بنایا ہے۔
مشرق وسطی میں ایسا امن پراسس جو امریکہ کے اس کردار کو کم کرے، وہ امریکہ کے لئے کسی طور پر بھی پسندیدہ نہیں ہوگا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ مشرق وسطی کا پیس پراسس اگر امریکی اشیر آباد سے ہو رہا ہوتا تو امریکہ کے لئے اس میں اپنے مفادات کے تحفظ کے راستے تلاش کرنا ممکن ہوتا۔ اس وقت سعودی عرب، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے نارملائزیشن کا جو عمل چل رہا ہے اس میں امریکہ مرکزی کردار ادا نہیں کر پا رہا اور چین سمیت دیگر قوتیں زیادہ سرگرم ہیں۔
اس تناظر میں خطے میں یکدم جو تلخی پیدا ہوئی ہے اس کے واحد بینیفشری کی شناخت مشکل نہیں رہتی۔ مسلم ممالک میں اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف جو عوامی ردعمل پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں سعودی عرب کے لئے ایک بار پھر مشکل ہو جائے گا کہ وہ کسی نارملائزیشن کے عمل کو آگے بڑھائے۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کے لئے بھی اتنی ہلاکتوں کے بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ ایک بار پھر عوامی غیض و غضب کا رخ ایران اور دیگر ممالک کے طرف موڑ دے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں امریکہ کا خطے میں رول مزید مستحکم ہو گا اور اسے یہ مہلت ملے گی کہ وہ سعودی عرب، اسرائیل اور ایران کو اپنی روایتی مشرق وسطی پالیسی کے تحت ڈیل کرتا رہے۔
اس سوال کا جواب بہرحال اپنی جگہ باقی ہے کہ حماس نے ان حملوں سے پہلے کیا ہوم ورک کیا تھا اور کن عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے حماس نے غیر معمولی اقدامات کا فیصلہ کیا؟ کیا حماس نے ایک بار پھر مشرق وسطی کی سیاست میں وہی غلطی دہرائی ہے جس کا ارتکاب جانے انجانے میں اخوانی فکر کے حامل سیاسی گروہ تسلسل سے کرتے رہے ہیں اور جن کا فائدہ ہمیشہ اسی استعماری وقت کو ہوتا ہے جس کے خلاف جدوجہد کا علم بلند کیا جاتا ہے؟