(قسط سوم)
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
1979ء میں خطے میں دو بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی اور ایران میں خمینی انقلاب برپا ہوا۔ ضیاء صاحب نے افغان بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اول اول یہ صرف اور صرف پاکستان کا فیصلہ تھا، امریکا اور سوویت یونین کی مخالف دیگر قوتیں بعد میں جا کر اس میں شریک ہوئیں۔
مذکورہ بالا دو واقعات کی وجہ سے اندرون ملک اور بیرون ملک ضیاء صاحب اور ان کی حکومت کی پذیرائی میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ تمام بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا اور نئی جماعتیں وجود میں آئیں۔ وہ سیاست دان، علما، صحافی،اور دیگر کاروباری و سماجی شخصیات جنہیں بھٹو صاحب کے دور میں مصائب، مشکلات اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا اُن کی اکثریت کو ضیاء صاحب نے نرم خوئی، انکسار اور تواضع سے کام لے کر اپنا گرویدہ کر لیا۔ ان میں لبرل، سیکولر، جمہوری، اسلامی، ترقی پسند و قوم پرست غرض ہر طرح کے لوگ شامل تھے، جنہوں نے ضیاءصاحب سے اختلاف کی جراۤت کی، انہیں قید و بند، کوڑوں، نظربندیوں، روپوشیوں، غرض ہر طرح کے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ضیاء صاحب نے اپنے اقتدار، قوم وملک اور امت مسلمہ کے لیے بزعم خود جو بہتر سمجھا، وہ کیا، اس سلسلے میں جو ان کے حامی بنے انہیں بھرپور طریقے سے نوازا گیا اور جنہوں نے مخالفت کی انہیں اس کی پوری قیمت چکانا پڑی۔
نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، ایئرمارشل (ر) اصغرخان، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمن، سردار غوث بخش بزنجو، سردار عبدالرحیم مندوخیل، رسول بخش پلیجو، ملک محمد قاسم، معراج محمد خان وغیرہ نے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے اپنی پارٹیوں اور عوام کو مارشل لا کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی تو ان پر جیلوں کے دروازے کھل گئے۔ کچھ راہنماؤں کو ان کی پیرانہ سالی کی وجہ سے گھروں میں نظربند کر دیا گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی اس دور میں زیادہ تر بیرونِ ملک دوروں پر رہے۔ انہوں نے ورلڈ اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے مختلف ممالک میں اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یاد رہے کہ ایئرمارشل اصغرخان کے بعد نورانی میاں اور شیر باز مزاری بھی قومی اتحاد چھوڑ گئے تھے۔ جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ضیاء صاحب کی پرزور حامی بن گئیں۔ جو بلوچ قوم پرست سردار خیر بخش مری کی قیادت میں افغانستان چلے گئے تھے واپس آ گئے۔ بعد ازاں سردار خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل، ممتاز بھٹو، مصطفی کھر وغیرہ لندن چلے گئے۔ بھٹو صاحب کی بیوہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی دوستوں کی فرمائش پر جیلوں سے نکال کر ”علاج“ کے لیے بیرون ملک جانے کی سہولت مل گئی، جبکہ بھٹو صاحب کے بیٹوں میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو نے الذوالفقار کے نام سے تنظیم بنا لی، جس نے ملک میں مختلف پرتشدد کارروائیوں، جیسے چودھری ظہور الٰہی و ظہورالحسن بھوپالی کا قتل، ضیاء صاحب کے طیارے پر نا کام میزائل حملے اور بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ مرتضیٰ بھٹو کو کچھ نوجوان ساتھی مل گئے، انہوں نے افغانستان میں ٹریننگ کیمپ قائم کر لیا، ایم آر ڈی کی تحریک کو ان پر تشدد کارروائیوں سے شدید نقصان پہنچا، پھر الذوالفقار نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا جسے پہلے افغانستان، پھر لیبیا لے جایا گیا، مغوی مسافروں میں ایک سرکاری عہدیدار کو قتل کر دیا گیا، اس واقعے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور ایم آر ڈی کی تحریک بری طرح کچل دی گئی۔
ضیاء صاحب نے ایسے اقدامات بھی کیے جو ان کی اسلام دوستی اور پاکستان کی خود مختاری و سالمیت کے استحکام کے آئینہ دار تھے جیسے افغان جہاد، وفاقی شرعی عدالت کا قیام، قرارداد مقاصد کو آئین کے دیباچے کی بجائے اس کا حصہ بنا دینا، اقوام متحدہ میں خطاب سے پہلے تلاوتِ قرآن پاک کا اہتمام، نظامِ صلوٰة وزکوٰة وعشر کمیٹیوں کا قیام، قومی سطح پر سیرت کانفرنسوں کا انعقاد، قومی اور مذہبی تہواروں کو سرکاری سرپرستی میں عوامی طور پر منائے جانے کا اہتمام، رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے بڑے اور نامور صحافیوں، علما، سمیت مختلف سماجی شخصیات وطبقات سے براہ راست رابطے، تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کو نہ صرف جاری رکھنا بلکہ اس کو تیز کرنا، مسلم امہ کے مسائل میں دلچسپی، کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کوبین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا وغیرہ۔
اب ضیاء صاحب ملک اور بیرون ملک ایک نئے انداز میں بروئے کار آئے، پھر انہوں نے دسمبر 1984ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی۔ ان سب کے باوجود بالآخر انہیں پارلیمان کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے غیر جماعتی الیکشن کا اعلان کر دیا۔
یہ الیکشن فروری 1985ء میں ہونا قرار پائے۔ ایم آر ڈی کے نظربند، گرفتار اور روپوش رہنماؤں کو سہولت دی گئی کہ وہ اس غیرجماعتی الیکشن کے متعلق اپنا موقف واضح کرنے کے لیے اجلاس منعقد کریں۔ جنوری 1985ء میں نظر بند ایئرمارشل (ر) اصغر خان کی قیام گاہ ایبٹ آباد پر یہ اجلاس رکھوایا گیا اور تمام دستیاب رہنماؤں کو وہاں اکٹھا کیا گیا، مولانا فضل الرحمن کو ہری پور جیل سے، نوابزادہ نصراللہ خان کو خان گڑھ سے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچایا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو بیرون ملک سے بذریعہ فون اجلاس میں شریک ہوئیں۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر بھٹو دونوں کی عمر اس وقت اکتیس برس تھی، ایک روایت کے مطابق دونوں نوجوان راہنماؤں نے غیر جماعتی الیکشن میں حصہ لینے پر اصرار کیا لیکن بزرگ جمہوریت پسند راہنما بائیکاٹ پر تلے ہوئے تھے، آخر کار بزرگ رہنماؤں کی رائے غالب آئی اور ایم آر ڈی نے متفقہ طور پر فروری 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی عام انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر ڈالا۔ اس وقت سنا گیا تھا کہ ضیاء صاحب نے ایم آر ڈی کے اس فیصلے پر سکون کا سانس لیا۔
یوں ملک بھر میں غیر جماعتی انتخابات کے لیے سرگرمیاں شروع ہوگئیں، ضیاء صاحب کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے بہت سے نئے چہرے اور 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والی شخصیات میدان میں آ گئیں۔ جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے وہ دھڑے جو ضیاء صاحب کے حامی بن کر سات سال تک قومی وسائل اور حکومتی اختیارات سے متمتع ہوتے رہے، انہوں نے بھی ان انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ فروری 1985ء میں ہونے والے ان انتخابات کے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ گئیں۔
قومی اسمبلی میں ضیاء صاحب کو سب سے پہلا سرپرائز اس وقت ملا جب اسپیکر شپ کے لیے ان کے امیدوار خواجہ محمد صفدر کے مقابلے میں پرانے مسلم لیگی انور عزیز چودھری نے جوڑ توڑ کر کے سید فخر امام کو لا کھڑا کیا۔ فخر امام کو مقابلے سے روکنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور وہ خواجہ محمد صفدر کے مقابلے میں اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ غیرجماعتی قومی اسمبلی کے ارکان کی طرف سے یہ پہلا دھچکا تھا جو ضیاء صاحب کی حکمرانی کو لگا۔
غیر جماعتی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کسے بنایا جائے گا؟ ان دنوں اسلم خٹک، الٰہی بخش سومرو، مخدوم زادہ حسن محمود، میر ظفراللہ جمالی، نوابزادہ عبدالغفور ہوتی، سید حامد رضا گیلانی کے نام لیے جا رہے تھے۔ بوجوہ ضیاء صاحب سندھ سے وزیرِ اعظم لینا چاہتے تھے۔ الٰہی بخش سومرو بظاہر اس دوڑ میں سب سے آگے تھے لیکن جب ضیاء صاحب نے پیر صاحب پگارا سے مشورہ کیا تو پیر صاحب نے کہا کہ سندھ سے وزیرِ اعظم ان کا آدمی ہونا چاہیے اور انہوں نے اپنے دیرینہ نیازمند سندھڑی کے محمد خان جونیجو کو نامزد کر دیا۔ جونیجو صاحب قبل ازیں ایوب خان کی کابینہ کے رکن رہ چکے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے دھیمے مزاج کی وجہ سے کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے تھے، غیر جماعتی انتخابات میں وہ بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ جب انہیں وزیراعظم نامزد کیا گیا تو صدر ضیاء کی طرف سے یہ پوری قومی اسمبلی کے لیے ایک سرپرائز تھا۔
وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیرِ اعظم جونیجو نے اپنے پہلے خطاب میں یہ کہہ کر دھماکا کر دیا کہ جمہوریت اور مارشل لا ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دھیمے، کمزور اور مرنج مرنجان سمجھ کر وزیرِ اعظم بنائے گئے محمد خان جونیجو نے مرغِ دست آموز بننے کی بجائے مضبوط اور اصل سربراہِ حکومت بننے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے۔ انہوں نے صدر ضیاء کے دستِ راست جنرل مجیب الرحمن کو وفاقی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے سے برطرف کر دیا اور وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کراچی سے منتخب زین نورانی کو وزیرمملکت برائے خارجہ مقرر کر دیا۔ 14 اگست کو جونیجو صاحب نے اعلان کر دیا کہ یکم جنوری کو ملک میں مارشل لا نہیں ہوگا۔ بظاہر ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہو گیا اور غیر جماعتی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کا ظہور ہوا، ضیاء صاحب کی فرمائش پر پیر صاحب پگارا نے وزیرِ اعظم جونیجو کو پاکستان مسلم لیگ کا صدر بنانے کے لیے عہدہ چھوڑ دیا۔ جونیجو صاحب کو 1986ء میں مسلم لیگ کی جنرل کونسل نے لاہور کے اجلاس میں صدر منتخب کر لیا۔
مارشل لا کے خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 10 اپریل 1986ء کو طلوع آفتاب کے ساتھ لاہور ایئرپورٹ پر اتریں۔ بے نظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ان کا ٹرک صبح سات بجے کے قریب ایئرپورٹ سے روانہ ہوا، تقریباً دس گھنٹے کے بعد مینارِ پاکستان پہنچا لیکن اس ٹرک پر ایم آر ڈی کے راہنماؤں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ یہاں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بے نظیر نے” ضیاء جاوے ای جاوے“ کے نعرے لگائے۔ 3 مئی کو کراچی میں بھی محترمہ کا زبردست استقبال ہوا، لاہور اور کراچی کے ان استقبالی جلوسوں کو ہم نے بھی دیکھا، بلاشبہ یہ ہماری اب تک کی تاریخ کے بہت بڑے جلوس تھے۔
(جاری ہے)