الشریعہ کے جنوری ۲۰۱۹ء کے شمارے میں دیوبندی روایت کی بعض فکری خصوصیات پر ایک تحریر لکھی تھی۔ اس کی ابتدا میں جو توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’برصغیر کی مذہبی فکر کے افق پر مستقبل دیدہ کی حد تک قائدانہ کردار دیوبندی طبقے کا ہی ہے’’، اس میں تو اب کئی حوالوں سے تردد محسوس ہوتا ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تحریر اب بھی بامعنی دکھائی دیتی ہے۔ (صاحبِ مضمون)
کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مختصر تبصرے میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ بقا وارتقا اور تنازع للبقاء کی حرکیات کے بغور مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برصغیر کی مذہبی فکر کے افق پر مستقبل دیدہ کی حد تک قائدانہ کردار دیوبندی طبقے کا ہی ہے۔ یہ بات پیروکاروں کی تعداد میں اضافے یا معاشرتی سطح پر وجود ونفوذ کے دیگر مظاہر کے حوالے سے نہیں، بلکہ مذہبی فکر کی سطح پر مرجعیت اور عمومی اعتماد کے حوالے سے عرض کی گئی تھی جو کسی طبقے کو سوسائٹی میں علی العموم حاصل ہوتا ہے اور اس کے مخالف اور حریف طبقوں کے لیے بھی عملاً اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس پہلو سے دیوبندی فکر کی تاریخ ایک تفصیلی تجزیے کی متقاضی ہے، تاہم اختصاراً یہ چند نمایاں خصوصیات ہیں جو اس طبقے کو زیر بحث خصوصی کردار کا اہل بناتی ہیں:
۱۔ روایت کے ساتھ گہری وابستگی، علمی وتدریسی سطح پر تراث کے ساتھ زندہ تعلق، اور روایت کے معروف متخالف رجحانات کے حوالے سے حتی الامکان تطبیق اور شمولیت (inclusivity) کا رویہ۔
۲۔ بڑے کینوس پر زمانی اور فکری تبدیلیوں کا شعور اور طرز فکر، اسلوب استدلال اور حکمت عملی میں لچک کی صلاحیت، یعنی adaptability ۔
۳۔ مذہبی شعور کی مختلف سطحوں (عقلی، روحانی، رسمی وتقلیدی) اور تنوعات کو سمجھنے اور انھیں مخاطب بنانے کی صلاحیت اور کسی ایک خاص رجحان کو مزاج یا شناخت کا بنیادی اور مطلق عنصر بنانے سے اجتناب۔
۴۔ اپنے مخصوص علمی حلقے سے باہر ہونے والی علمی وفکری کاوشوں سے خاموش اور بھرپور استفادہ کرنے اور مفید اور قابل قبول علمی دریافتوں کو اپنے نظام فکر میں سمو لینے کی صلاحیت۔
۵۔ فکری وعملی صلاحیتوں میں میدان کی ضرورتوں کے لحاظ سے تنوع پیدا کرنے اور ایسی تقسیم کار پیدا کرنے کی صلاحیت جس سے مختلف دائروں کے مختلف اور بعض اوقات متضاد تقاضوں کو بیک وقت نبھایا جا سکے۔
۶۔ حریف طبقات کے ساتھ تعامل کی ایسی حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت جس سے ایک طرف اپنے امتیازی تشخص کی حفاظت اور دوسری طرف اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے تقاضے بیک وقت پورے کیے جا سکیں۔
یہ خصوصیات ظاہر ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے طبقے کے طرز فکر کو سامنے رکھ کر شمار کی گئی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ہر سطح پر اور طبقے سے واہستہ ہر ہر گروہ میں ان میں سے ہر خصوصیت یکساں پائی جاتی ہو۔ متضاد رویے اور انداز فکر یقینا موجود ہیں، لیکن جب یہ ایک دوسرے کو cancel out کرتے ہیں تو نتیجے کے لحاظ سے مذکورہ خصوصیات کو بلاشبہ پورے طبقے کی مجموعی خصوصیات قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تمہید کی روشنی میں، زیر نظر سطور میں ، ہم تاریخی تناظر میں مذکورہ فہرست میں سے آخری دو خصوصیات کی کچھ واقعاتی تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔
استعماری دور میں برصغیر کے مسلمان معاشرے کی، روایت پسند اور جدت پسند کی بنیاد پر جو تقسیم کی گئی تھی، اس میں روایت پسندی کی نمائندگی بنیادی طور پر مذہبی طبقوں کے حصے میں آئی۔ اس تقسیم نے مختلف عنوانات (مثلا ملا اور مسٹر، قدامت پسند اور جدت پسند، مذہبی اور غیر مذہبی وغیرہ) کے تحت دو طبقوں کو ایک دوسرے کا حریف اور مدمقابل بنا دیا اور غیر سازی (otherization )کے جو بھی اسالیب اور رویے بروئے کار لائے جا سکتے تھے، دونوں طرف سے لائے گئے۔ یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے۔ اس پورے دور میں، دیوبندی فکری روایت کا ایک خاص پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اس روایت میں علماء کا ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جس نے اس خلیج کو پاٹنے اور غیر سازی کی تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی، مختلف مذہبی، سیاسی اور قومی ضروریات کے لحاظ سے متضاد فکری رجحانات رکھنے والے طبقات کے باہم شریک کار بننے کی راہ ہموار کی، اور خاص طور پر معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین مذہبی وغیر مذہبی یا دین دوست اور دین دشمن کی قطعی اور حتمی صف بندی کو روکنے میں ایک ذمہ دارانہ اور موثر کردار ادا کیا۔
ذرا ماضی قریب کی تاریخ پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالیے:
۱۔ جدید تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں سرسید احمد خان کی مساعی سے جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا، وہ اس تقسیم کا سب سے پہلامظہر تھا۔ سرسید احمد خان کی نسبت سے یہ طبقہ، مذہبی علماء کی نظر میں عموما مطعون تھا، تاہم شیخ الہند مولانا محمود حسن نے اس خلیج کو کم کرنے کے لیے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند اور علی گڑھ کے محمڈن اورئنٹل کالج کے مابین فضلاء کے تبادلے کی تجویز پیش کی، اور ۱۹۲٠ء میں کالج کے، یونیورسٹی بنائے جانے کے موقع پر تاسیسی اجلاس میں خطبہ صدارت بھی پیش کیا۔ شیخ الہند نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور شدید علالت کے باوجود مجلس تاسیس میں شرکت کےلیے چارپائی پر تشریف لے گئے۔ شیخ الہند کے صحبت یافتگان میں سے بہت سے حضرات نے مذہبی وسیاسی قیادت کے میدان میں اپنا کردار ادا کیا جو قدیم وجدید کی تفریق کو ایک حد میں رکھنے کے حوالے سے موثر ثابت ہوا۔
۲۔ ۱۹۳٠ء کی دہائی میں مسلم سیاست نے ایک اور کروٹ لی تو مذہبی وغیر مذہبی کی تقسیم ایک نئے رنگ میں نمایاں ہو گئی۔ یہاں اختلافی رجحانات کا عنوان بظاہر متحدہ قومیت یا جداگانہ مسلم سیاسی تشخص تھا، لیکن صف بندی کچھ اس طرح ہو گئی کہ مذہبی علماء بحیثیت مجموعی ایک طرف اور جداگانہ سیاسی تشخص کے حامی دوسری طرف کھڑے نظر آنے لگے۔ اس نزاع میں بھی غیر سازی کے رویے فریقین کے ہاں اپنی انتہا پر نظر آئے، اور خاص طور پر جمعیۃ علمائے ہند اور جماعت اسلامی کی طرف سے مسلم لیگ اور اس کے قائدین سے متعلق دینی اعتبار سے کسی حسن ظن کو خارج از امکان قرار دے دیا، تاہم مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور چند دوسری نامور مذہبی شخصیات نے اپنا سیاسی وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال کر اس بحث کو خالصتا ایک سیاسی بحث کا رنگ دے دیا اور جمعیۃ علمائے ہند کی طرف سے مسلم لیگ کو لادینی سیاست کا نمائندہ قرار دے کر غیر سازی کا جو بنیادی مقدمہ قائم کیا گیا تھا، اسے غیر موثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۳۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے ساتھ چند دیگر جید دیوبندی اکابر نے جب تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جمعیۃ علماء ہند کے راہ نماوں کی طرف سے، جو ہندو مسلم متحدہ قومیت کے حامی اور ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کے مخالف تھے، ان کے سامنے ایک اعتراض یہ پیش کیا گیا کہ مسلم لیگ میں تو کمیونسٹ اور قادیانی بھی شامل ہیں جو مرتد ہیں، جبکہ مسلم لیگ میں ان کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ انھیں مسلمان تسلیم کیا جا رہا ہے، اس لیے ایسی جماعت کو کیسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں مذہبی علماء کا فتوی ٰ اور مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کا زاویہ نظر اور پوزیشن مختلف ہو سکتی ہے۔ علماء، شرعی حیثیت سے یہ واضح کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کا عقیدہ اسلام کے خلاف ہے اور وہ درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، جبکہ سیاسی قائدین نے اپنی ضروریات کے لحاظ سے یہ طے کیا ہے کہ جو بھی گروہ خود کو مسلمان شمار کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ مذہبی علماء کے فتوے کی رو سے ان کی حیثیت کیا ہے، انھیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ گویا ان دونوں باتوں کا اپنا اپنا محل ہے اور اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں موقف بیک وقت برقرار رکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے یہ بھی کہا کہ قادیانی اگرچہ اپنے خلاف اسلام عقیدے کی وجہ سے حقیقتا اسلام سے دور جا پڑے ہیں، لیکن اپنے زعم کے مطابق وہ اسلام ہی کے پیروکار ہیں اور نفس کلمہ اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے، اس لیے ان سے متعلق فقہی احکام بعض پہلووں سے اگرچہ زیادہ سخت ہیں، لیکن جہاں کھلے کفار کے ساتھ مقابلہ ہو اور ایسے منحرف گروہ بھی بزعم خود اسلام اور مسلمانوں کی تائید کے لیے ان کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہونا چاہیں تو شرعی وفقہی طور پر اس کی گنجائش موجود ہے۔
۴۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے فکری منظر نامے پر ابھرنے والی نظریاتی بحثوں میں سرمایہ داری اور سوشلزم کی بحث ، مذہبی یا سیکولر ریاست کی بحث کے بعد، دوسری بڑی بحث تھی۔ اس بحث میں بھی غیر سازی کا رویہ اپنی پوری شدت کے ساتھ نمودار ہوا اور جہاں سوشلسٹوں نے مذہبی اور مذہبی طبقات کی کردار کشی کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا، وہاں مولانا مودودی کے لٹریچر اور تنظیمی جدوجہد نے بھی سوشلزم کے بیانیے کو لازمی طور پر ایک مذہب مخالف بیانیہ اور سوشلسٹوں کو مذہب دشمن طبقہ باور کرانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر دیا۔ اس صورت حال میں جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت نے راہ اعتدال اختیار کی اور معاشی نظام کی ترجیحات کے حوالے سے نہ صرف سوشلسٹوں کے بنیادی مطالبات کی تائید کی، بلکہ اس بیانیے کو مذہبی استدلال بھی فراہم کیا اور اس کی پاداش میں ’’سوشلسٹ ملا“ جیسے القابات سے نوازے گئے۔ جمعیۃ کی قیادت نے سوشلزم کو کفر قرار دینے کے حوالے سے جید علماء کی طرف سے جاری کردہ فتوے سے بھی اختلاف کیا اور اپنے مذہبی وعلمی پس منظر کی بدولت اس فتوے کو مذہبی اعتبار سے غیر موثر بنا دیا۔
۵۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث کے زمانے میں جمعیۃ علماء کی قیادت مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے ہاتھ میں تھی۔ ان کی قیادت میں جمعیۃ علماء نے غیر سازی کے ایک او رمحاذ پر بھی مثبت کردار ادا کیا۔ یہ محاذ، ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مشرقی پاکستان اور اس کے علاوہ سرحد اور بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو ملک دشمن باور کرانے کا محاذ تھا۔ جمعیۃ علماء نے اس بیانیے کو مسترد کیا اور نہ صرف قوم پرستوں کے جائز سیاسی مطالبات کی حمایت کی، بلکہ ان کے ساتھ مل کر قومی سیاست میں مشترکہ کردار ادا کرنے کو اپنی بنیادی ترجیح بنایا۔ جمعیۃ علماء نے شیخ مجیب الرحمن کو ملک دشمن ماننے سے انکار کیا، بلوچستان میں فوجی ایکشن کی مخالفت کی، سرحد میں قوم پرست سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور ۷۳ء کی دستور سازی میں ان تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دستور میں واضح اور فیصلہ کن اسلامی دفعات کی شمولیت کی راہ ہموار کی۔
۶۔ غیر سازی کے اور ایک محاذ پر خود جمعیۃ علماء کی مذکورہ قیادت کے مابین اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ محاذ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے تھا۔ مولانا مودودی کی دینی فکر اور جماعت اسلامی کے کردار پر جارحانہ تنقید میں مولانا ہزاروی کا اسلوب پورے مذہبی طبقے میں منفرد تھا اور وہ جماعت اسلامی کی مکمل غیر سازی کے نظریے کے علمبردار تھے، یہاں تک کہ وہ کسی مشترکہ اور متفقہ مذہبی یا سیاسی مسئلے میں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ مولانا ہزاروی کی مہم کے نتیجے میں روایتی مذہبی حلقوں میں جماعت اسلامی کی مکمل غیر سازی کا یہ نظریہ بڑے پیمانے پر مقبول ہو چکا تھا اور ’’سو یہودی، ایک مودودی“ کا نعرہ ایک مقبول عام نعرے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس صورت حال میں مولانا مفتی محمود نے جماعت اسلامی کو نہ صرف قومی نمائندگی کا حصہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا، بلکہ مولانا مودودی کی وفات پر ان کی دینی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ جمعیۃ علماء کی، مفتی گروپ اور ہزاروی گروپ میں تقسیم کے اسباب میں ایک بنیادی سبب یہ اختلاف بھی تھا۔ دو عشروں کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بھی متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کے ساتھ سیاسی شراکت کا راستہ اختیار کر کے غیر سازی کے اس انتہا پسندانہ رویے کی نفی کی جس کے مولانا ہزاروی علمبردار تھے۔ یوں جماعت اسلامی اور روایتی مذہبی حلقوں کے مابین ۶٠ء اور ۷٠ء کی دہائیوں کی تلخی کو بڑی حد تک قصہ ماضی بنانے میں مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کا بنیادی کردار ہے۔
۷۔ بھٹو حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کے نتیجے میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو گئیں اور مقتدرہ کی تائید سے ایک بھرپور سیاسی تحریک چلا کر پیپلز پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس دور میں جب فوجی حکومت کی طرف سے پیپلز پارٹی کو ایک ملک دشمن جماعت باور کرایا جا رہا تھا اور مذہبی طبقات اسے ایک دین بیزار اور لبرل سیاسی عناصر کا پلیٹ فارم تصور کر رہے تھے، مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیۃ علمائے اسلام کے ایک دھڑے نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں تحریک بحالی جمہوریت میں فعال کردار ادا کیا اور اس موقف پر خود ٹھیٹھ دیوبندی حلقے اور اس کے اکابر کی سخت ناراضی مول لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے لبرل خیالات کی وجہ سے مذہبی حلقوں کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول تھیں اور اسلامی حدود کے متعلق ان کے اس طرح کے بیانات منظر عام پر آ چکے تھے کہ یہ (نعوذ باللہ) وحشیانہ اور غیر انسانی سزائیں ہیں۔ چنانچہ جب وہ ۸۸ء میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آئیں تو تمام مذہبی قوتوں نے بیک زبان اسے کم وبیش کفر اور اسلام کی بحث قرار دیا اور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی کہ عورت کی حکمرانی کی صورت میں فی الواقع خدا کا عذاب قوم پر مسلط ہو گیا ہے۔ اس صورت حال میں بھی مولانا فضل الرحمن بالفعل بے نظیر حکومت کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کا یہ تبصرہ اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع ہوا تھا کہ عورت کی حکمرانی کے مسئلے میں مخالفین کی ’’سوئی ایک جگہ پر اٹک گئی ہے۔“
۸۔ ۸٠ء کی دہائی میں ہی ایران کے شیعہ مذہبی انقلاب کے رد عمل میں ہمارے ہاں شیعہ سنی کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی اور دیوبندی مکتب فکر کے اعلی ٰ ترین اداروں اور شخصیات کی طرف سے اثنا عشری اہل تشیع کی تکفیر کے فتوے کے ساتھ ’’کافر کافر شیعہ کافر“ کے نعرے کو گلی گلی میں گونجنے والی صدا کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس دور میں اس نعرے سے اختلاف یا اس پر تنقید، انتہا پسند اور جذباتی عناصر کی طرف سے گردن زدنی قرار دیے جانے کے لیے کافی تھی، تاہم مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیۃ علمائے اسلام نے سیاسی محاذ پر یہاں بھی تکفیر وتفریق اور غیر سازی کی اس خوفناک لہر کا سامنا کیا ۔ جمعیۃ علماء نے نہ صرف اس تکفیری مہم کا حصہ بننے سے گریز کیا، بلکہ اس کی واضح مخالفت کی۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں، سیاسی محاذ پر متحدہ مجلس عمل میں اور دینی مدارس کی سطح پر اتحاد تنظیمات مدارس میں اہل تشیع کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا اور یوں ذمہ دارانہ اور جرات مندانہ کردار ادا کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے اور سیاست کو شیعہ سنی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچا لیا۔
۹۔ ۲٠٠۱ء کے بعد پاکستان کے علمی ودینی حلقوں میں جناب جاوید احمد غامدی کے غیر روایتی افکار وخیالات ایک خاص تناظر میں بحث ومباحثہ کا موضوع بننا شروع ہوئے۔ گفتگو نے بہت جلد تضلیل وتفسیق، بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے تکفیر کے فتووں کی صورت اختیار کر لی۔ غامدی صاحب کو منکر حدیث اور امت کے اجماعی عقائد ومسلمات سے منحرف متجدد قرار دیا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف روایتی مذہبی گروہ، بلکہ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسے حلقے اور خود غامدی صاحب سے فکری یا غیر فکری بنیادوں پر الگ ہونے والے حضرات غامدی صاحب اور ان کے متبعین کو امت سے بالکل کٹا ہوا ایک فرقہ قرار دے کر ان کی مکمل غیر سازی کے معاملے میں یک زبان ہو گئے۔ اس ماحول میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے بعض اہم علمی مسائل کے حوالے سے غامدی صاحب کے حلقہ فکر کے ساتھ علمی مکالمے کا ڈول ڈالا اور واضح علمی اختلاف کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنا یہ اصولی موقف بیان کیا کہ ان حضرات کی جو بات جمہور اہل علم کے ہاں قابل قبول نہیں، اس سے اختلاف کے باوجود ’’دیگر اصحاب علم کے تفردات کی طرف ہم ان کا احترام کریں گے“ اور یہ کہ ہم ’’یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔“ والد گرامی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے، غامدی صاحب کے الگ ہونے کی خبر پر افسوس اور رنج ظاہر کیا اور لکھا کہ ’’غامدی صاحب علوم عربیہ کے ممتاز ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور دینی لٹریچر پر بھی ان کی گہری اور وسیع نظر ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل میں ایسے فاضلین کی موجود گی بہت سے معاملات میں راہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔“ اس موقف پر والد گرامی کو خود اپنے حلقے کے اکابر کی طرف سے فتووں، یہاں تک کہ سماجی مقاطعہ تک کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے پوری استقامت سے اس صورت حال کا سامنا کیا اور غیر سازی کے انتہا پسندانہ رویے کی نفی کرتے ہوئے دیوبندی روایت کے تسلسل کو قائم رکھا۔
۱٠۔ حالیہ دنوں میں تبلیغی جماعت کے ممتاز قائد، مولانا طارق جمیل صاحب نے طرز حکومت کو ریاست مدینہ کے نمونے پر استوار کرنے کے عزم کے حوالے سے جناب عمران خان کے متعلق اچھی توقعات کا اظہار کیا، جبکہ دیوبندی حلقے کا عمومی موقف تحریک انصاف کے حوالے سے بالکل مختلف ہے۔ خاص طور پر جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت ایک عرصے سے تحریک انصاف کو ایک اسلام دشمن اور یہودی لابی کے زیر اثر قائم کی گئی جماعت قرار دیتی چلی آ رہی ہے اور اس کی مخالفت کو ملک میں اسلامی ایجنڈے کے ساتھ وفاداری کا ایک تقاضا باور کرتی ہے۔ کئی حساس مذہبی ایشوز، مثلا حکومتی مناصب پر احمدیوں کی تقرری، آسیہ مسیح کیس میں ملزمہ کو عدالت عظمی کی طرف سے بری کیے جانے اور شراب کی خرید وفروخت پر قانونی پابندی عائد کرنے جیسے مسائل میں حکومتی موقف نے مذہبی جماعتوں کے نقطہ نظر سے اس تاثر پر مزید مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اس صورت حال میں مولانا طارق جمیل نے تحریک انصاف کے متعلق جو گفتگو کی اور اسے اہتمام کے ساتھ سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا ، وہ ہمارے نقطہ نظر سے دیوبندی مزاج کی اسی خصوصیت کا ایک اظہار ہے جس کی مختلف مثالیں سابقہ سطور میں پیش کی گئی ہیں۔
کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق کو قائم رکھنے اور باہمی تعامل کے لیے ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالبا سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے، بدرجہ اتم موجود ہے اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں حاصل امتیاز کے ایک بنیادی سبب کا درجہ رکھتی ہے۔