قسط پنجم
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
14 اپریل 1988ء کو جنیوا میں افغان مسئلہ پرسمجھوتا ہوا تو جونیجو صاحب نے وہاں پاکستان کی نمایندگی کے لیے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کی بجائے وزیر مملکت زین نورانی کو بھیج دیا جنہوں نے اس وعدے پر پاکستان کی طرف سے دستخط کیے۔ ایک طرف جونیجو صاحب اس معاہدے کا کریڈٹ لیتے رہے تو دوسری طرف ضیاء صاحب اس کو اپنی حکمت عملی کا ثبوت گردانتے رہے۔
اس سے پہلے ضیاء صاحب نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمان پر الزام لگایا کہ اس نے اپنی توجہ سڑکیں بنانے اور پلاٹ حاصل کرنے پر رکھی، شریعت کے نفاذ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نوابزادہ صاحب نے اس تقریر کو قائد حزب اختلاف کی تقریر قرار دیا۔
مئی1988ء کے آخری ہفتے جونیجو صاحب بیرون ملک غالباً چین کے دورے پر چلے گئے، انہی دنوں ضیاء صاحب نے 1990ء میں وردی اتارنے کا اعلان کیا۔ 29 مئی 1988ء کو جب ضیاء صاحب کا چین کے دورے پر جانا طے تھا۔ انہوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلائی اور 58(2) بی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑ دی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ توڑی جانے والی اسمبلی جمہوریت اور نفاذ اسلام دونوں ہی کے بارے میں عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری اور عوام کو مناسب وقت پر اپنے نئے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دینے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے جونیجو صاحب پر سیاسی دباؤ کا شکار ہونے کا الزام لگایا اور اسی بناء پر کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کے عام ہونے اور ملک میں امن وامان کی صورت حال کے مکمل طور پر بگڑنے کی چارج شیٹ بھی جاری کی لیکن اس وقت عام خیال یہی تھا کہ اوجڑی کیمپ سانحے کے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی پر جونیجو صاحب کے اصرار کی وجہ سے انہیں گھر بھیجا گیا۔ اسی دن بلوچستان اسمبلی اور اگلے دن سندھ، پنجاب اور سرحد (خیبرپختونخوا) کی اسمبلیاں بھی توڑ دی گئیں۔
اصولاً قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑتے وقت 120 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے اور نگران وزیر اعظم کی تقرری کا اعلان آئینی ضرورت تھا مگر ضیاء صاحب تو پھر ضیاء صاحب تھے، وہی ضیاء صاحب جنہوں نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کیا ہے؟ دس بارہ صفحات کا کتابچہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں اور میری ایک آواز پر سارے سیاست دان بشمول بھٹو صاحب دم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگلے عام انتخابات 120 دن میں نہیں بلکہ الیکشن کا اعلان 120 دن میں کیا جائے گا، جبکہ نگران وزیر اعظم کی جگہ انہوں نے سینئر وزیر کی تقرری کا اعلان کر دیا۔ یہ عہدہ اسلم خٹک کو دیا گیا۔ اور ان کی کابینہ میں اکثر لوگ وہی تھے جو کل تک جونیجو صاحب کی کابینہ میں تھے۔
اقتدار کے بعد جونیجو صاحب سے پاکستان مسلم لیگ کی صدارت بھی چھیننے کی سازشیں شروع ہوگئیں۔ پیر صاحب پگارا نے اپنی مسلم لیگ فنکشنل کرنے کا اعلان کر دیا، ان کے ایما پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے جونیجو صاحب کو کسی قابل قبول شخصیت کے حق میں دستبردار ہونے کو کہا تو جونیجو صاحب نے انکار کرکے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس مہم نے ضیاء صاحب کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے سرحد (خیبرپختونخوا) کے وزیراعلیٰ جنرل (ر) فضل حق اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نوازشریف کے ذریعے جونیجو صاحب کو مسلم لیگ کی صدارت سے معزول کرنے کے لیے سابق مسلم لیگی ارکان کو توڑنا شروع کر دیا۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہونے والے ایک اجلاس میں بڑے مسلم لیگی قائدین آپس میں لڑ پڑے۔
17 اگست 1988ء کی شام پوری قوم اس وقت حیران وششدر اور دم بخود رہ گئی جب یہ خبر آئی کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے فوجی رفقاء سمیت بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں امریکی سفیر اور ایک امریکی جنرل بھی موجود تھے جبکہ جنرل صاحب کے ہمراہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت تھی۔ اسی رات چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان ملک کے قائم مقام صدر بن گئے، انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ کو آرمی چیف بنانے کا اعلان کر دیا۔ رات گئے قوم سے خطاب میں قائم مقام صدر نے ہنگامی حالت نافذ کر دی اور کاروبار مملکت چلانے کے لیے ایمرجنسی کونسل کے قیام کے ساتھ 16 نومبر1988ء کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ اس تاریخ کا اعلان ضیاء صاحب نے کیا تھا۔
تیسرے دن صدر جنرل محمد ضیاءالحق کو پورے قومی و فوجی اعزاز کے ساتھ نماز جنازہ کے بعد فیصل مسجد اسلام آباد کے قریب دفن کر دیا گیا۔ ان کے جنازے اور تدفین میں بلاشبہ عوام وخواص کا بہت بڑا اجتماع تھا۔ حادثے کی تحقیقات کے لیے پاکستان فضائیہ نے ایک بورڈ قائم کیا، بورڈ کی تحقیقات کا حاصل یہ تھا کہ امکان کے مطابق یہ تخریب کاری کا ایک ایسا گھناؤنا واقعہ تھا جو طیارے کے اندر سے بروئے کار آیا۔
ضیاء صاحب کے حادثے کے بعد مسلم لیگ واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی، ایک دھڑے کے صدر سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو بن گئے اور دوسرے دھڑے کی قیادت فدا محمد خان نے سنبھال لی۔ جونیجو صاحب نے سابق وزیر قانون و پارلیمانی امور اقبال احمد خان کو اور فدا محمد خان نے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نوازشریف کو اپنا سیکریٹری جنرل بنا لیا۔
ضیاء صاحب کے بعد ان کے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ چیلنج کرنے والوں میں قومی اسمبلی کے سابق رکن شیخ رشید احمد اور سابق وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ کے علاوہ دیگر ارکان قومی اسمبلی شامل تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے ضیاء صاحب کے اس اقدام کو غیر آئینی اور بلا جواز قرار دے کر ان کے اس حکم کو آئین کے منافی ہونے کا فیصلہ دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد سو سے زائد ارکان قومی اسمبلی نے اپنے دستخطوں سے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا نوٹس اسپیکر حامد ناصر چٹھہ کو پیش کیا تو اسپیکر نے 2 اکتوبر1988ءکو اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ دوسری طرف اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی، سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرکے اپنے حتمی فیصلے تک لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو معطل کر دیا۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مکمل فیصلے میں کہا کہ چونکہ اس وقت عوام آیندہ انتخابات کے لیے تیار ہیں، اس لیے اسمبلیاں بحال کرنے سے خلفشار بڑھنے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا اور انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ 29 مئی کا اقدام آئین کی دفعہ 58(2) بی کے تقاضوں کے مطابق نہیں لیکن قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کو بحال کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ عوام ازسرنو اپنے نمایندے منتخب کریں۔
برسوں بعد یہ راز جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے طشت ازبام کیا کہ انہوں نے وسیم سجاد کے ذریعے سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ دینے کا پیغام بھیجا تھا۔
(جاری ہے)