انتخابات کی آمد آمد ہے اور کچھ دوست و احباب رابطہ کر کے سوال کرتے ہیں کہ ووٹ کسے ڈالا جائے۔ یہ تحریر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی نہ کسی درجے میں ہمارے ساتھ محبت و احترام کا رشتہ رکھتے ہیں کیونکہ آج کل کسی بھی سیاسی نوعیت کی رائے کے اظہار پر مخالف رائے کے حاملین فوری طور پر مشتعل ہو کر اپنے اعمال کو ضائع کرنے والا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے دوستوں کو اس وبال سے بچانے کے لیے مناسب ہے کہ انہیں اس یاد دہانی کے دائرے سے ہی باہر رکھا جائے۔
الیکشن اور ووٹ کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات پیش نظر ہیں:
1۔ ہمارے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات پاکستان اور اسلام کا باہمی تعلق اور رشتہ ہے۔ ووٹ دیتے ہوئے ہمیشہ اس جماعت کو ووٹ دیں جو اس بارے میں ماضی میں عملی طور پر کچھ اقدامات کر چکی ہو۔ ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت سے اس بارے میں بہت کوتاہیاں ہوئی ہیں اور ہماری نظر میں دو بڑی جماعتیں نون لیگ اور پی ٹی آئی اس نظریاتی جہت سے برابر کی غیر معیاری کارکردگی کی حامل ہیں۔
2۔ ہمارا دوسرا اہم محاذ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے۔ اس ضمن میں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ نون لیگ کی کارکردگی اور موقف دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہت اچھا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا ایران سے گہرا تعلق اور پاکستان میں ایرانی لابی کو فروغ دینے کا سلسلہ بہت واضح ہے۔ حالیہ برسوں میں جس طرح ایران بار بار پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ تفصیلات میں جائے بغیر ہم اس ضمن میں نون لیگ کے موقف کو زیادہ بہتر اور قابل عمل سمجھتے ہیں۔
3۔ بین الاقوامی اور خطے کی سطح پر سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے دیرینہ دوست خلیجی ممالک کے ساتھ تلخی اور لڑائی کی جو پالیسی اپنائی تھی وہ محسن کشی کی واضح مثال تھی۔ محض ایرانی لابی کے زیرِاثر سعودی عرب و حلیف ممالک کے بارے میں منفی رویہ کسی طور پر پاکستان کی ریاست کے لیے مفید نہیں ہے۔
4۔ عوام کے لیے فلاحی اور مفاد عامہ کے منصوبوں کے حوالے سے بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نون لیگ نے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت اس بارے میں کوئی موثر کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
5۔ آخری بات یہ کہ ملکی سیاست میں فوج کی غیر ضروری مداخلت کے ہم ہمیشہ سے ناقد رہے ہیں اور اب بھی اس موقف پر قائم ہیں۔ ملک میں اس وقت جو سیاسی انتشار ہے وہ ماضی کی غلط اداراتی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ لیکن یہ بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت پر تنقید مناسب پیرائے اور حدود میں ہونی چاہیے۔ افواج پاکستان کو بحیثیت ادارہ اسکینڈلائیز کرنے کا صرف نقصان ہی ہوگا اور اس سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیئے۔ ہم پاکستان کو شام، عراق، لیبیا وغیرہ بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اداروں کی طرف سے زیادتی کو بھی مصلحت کے تحت صبر سے برداشت کر کے مستقبل میں بہتری کی راہ نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی کی عملی ٹکراؤ کی پالیسی بالکل نامناسب ہے۔
میں اپنے حلقہ احباب میں شامل دوستوں کو ان وجوہات کی بنیاد پر کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ووٹ کا استعمال ذمہ داری سے کریں اور اس رائے کے برعکس ووٹ دینے کے باوجود بھی ہم آپس میں دوست و معاون ہیں۔ انتخابی رنجشوں کو خود پر طاری نہ ہونے دیں۔