قسط ہشتم
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی، موجودہ سیاسی جوڑ توڑ کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
مدیر
جب راجیو گاندھی اسلام آباد میں خیرسگالی کے ان جذبات کا اظہار کر رہے تھے عین اس وقت بھارتی فوج راجستھان میں جنگی مشقیں کررہی تھی، راجیو گاندھی نے اس موقع پر کہا کہ وہ آمر کے دور میں پاکستان آنا نہ چاہتے تھے۔ وہ شاید بھول گئے کہ ان کے نانا پنڈت نہرو بطور وزیراعظم ایوب خان کے دور میں پاکستان آئے تھے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کی حکومت پر بھارتی وزیراعظم کی آمد پر اسلام آباد میں کشمیر ہاؤس اور کشمیر روڈ کے بورڈ اتارنے کا الزام لگا۔
16 نومبر کے عام انتخابات میں کچھ لوگوں نے ایک سے زائد نشستوں پر قسمت آزمائی کی اور وہ ایک سے زائد نشستیں جیت بھی گئے۔ ان کی چھوڑی ہوئی اور دیگر نشستوں پر ضمنی انتخابات کا مرحلہ آیا تو آئی جے آئی کے صدر غلام مصطفی جتوئی کو ان کے دوست غلام مصطفی کھر اپنی چھوڑی ہوئی نشست پر کوٹ ادو سے منتخب کروا کر قومی اسمبلی میں لے آئے۔ فیصل آباد سے چودھری محمد نذیر احمد کی نشست پر میاں زاہد سرفراز اور جھنگ سے بیگم عابدہ حسین کی نشست پر مولانا رحمت اللہ کو میابی ملی۔ پنجاب میں تمام نشستیں آئی جے آئی اور دیگر صوبوں میں پیپلزپارٹی نے حاصل کیں۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم بے نظیر کے سابق اتحادی نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا فضل الرحمن، آئی جے آئی کے ساتھ حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھ گئے۔ بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کی وجہ سے قائد حزب اختلاف کی نشست آئی جے آئی کی رکن جماعت پاکستان مسلم لیگ کے حصے میں آئی اور غلام حیدر وائیں کو تمام جماعتوں نے قائد حزب اختلاف بنا دیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے جو کابینہ تشکیل دی اس میں اکثر لوگ پارلیمانی تجربہ نہ رکھنے والے جوان اور احتجاجی سیاست کے خوگر تھے۔ یہ سب اقتدار کی راہداریوں میں اور بیوروکریسی کے لیے اجنبی تھے۔ جمعیت علماے اسلام کے حافظ حسین احمد کی اس کابینہ پر انڈر نائنٹین کی کسی گئی پھبتی کافی معروف ہوئی۔ تجربہ کار اور پرانے و منجھے ہوئے سیاسی قائدین کی حزب اختلاف میں موجودگی بھی پیپلزپارٹی کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھی۔
بلوچستان اسمبلی کو بلوچستان ہائی کورٹ نے بحال کر دیا اور وہاں نواب اکبر خان بگٹی نے جمعیت علماے اسلام (ف) کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ پنجاب میں میاں نوازشریف آئی جے آئی کے مضبوط وزیراعلیٰ تھے جبکہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ کو حکومت بنانے کے لیے خان عبدالولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کو ساتھ ملانا پڑا۔ البتہ سندھ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان پیپلزپارٹی کو اگرچہ مضبوط حیثیت حاصل تھی، لیکن یہاں بھی مرکز میں اس کی اتحادی ایم کیو ایم کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے رہتے تھے۔ فیصلہ سازوں نے اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار میں شریک تو کر لیا تھا لیکن اسے مکمل نگرانی میں رکھا گیا اور کبھی اس پر اعتماد نہ کیا گیا لہٰذا پاکستان پیپلزپارٹی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اکثر امور پر فیصلے نہ کرسکتی تھی۔
سلمان رشدی کی توہین آمیز کتاب کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں احتجاج شروع ہوا تو اسلام آباد میں بھی ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا جسے تشدد کے ذریعے روکنے کی کوشش میں پانچ شرکا شہید اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جلوس کے قائدین نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا فضل الرحمن وغیرہ بھی لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے متاثر ہوئے۔
اصل مقتدرین نے حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی طور پر کھل کھیلنے کی مکمل اجازت دے رکھی تھی۔ اس لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کے ایک مہینے کے اندر اندر ہی دونوں طرف سے ”سیاست کاری“ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آزاد امیدواروں اور ایم کیو ایم کی بن آئی۔ بالخصوص ایم کیو ایم کبھی تو حکومت سے ناراض ہو جاتی اور کبھی صلح کر لیتی۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور اپوزیشن آئی جے آئی کے علاوہ صدرِ مملکت غلام اسحاق خان نے بھی مہاجر قومی موومنٹ کے نخرے برداشت کیے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے چھ مہینے پورے ہوئے ہی تھے کہ پارلیمان میں آئی جے آئی اور دیگر تمام جماعتوں نے کمبائینڈ اپوزیشن پارٹی (سی او پی) کے نام سے ایک حکومت مخالف اتحاد بنا لیا۔ غلام مصطفی جتوئی اس اتحاد کے سربراہ بنے جبکہ دیگر قائدین میں نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالستار خان نیازی، بیگم عابدہ حسین وغیرہ شامل تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف غلام حیدر وائیں نے اپنی نشست اس اتحاد کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کے حوالے کر دی۔ یوں جتوئی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی بن گئے۔ اے این پی نے صوبہ سرحد میں پیپلزپارٹی سے الگ ہو کر آئی جے آئی سے اتحاد کر لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سسر حاکم علی زرداری کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ بنایا جانا بھی اپوزیشن کے لیے ”مبارک“ ثابت ہوا۔
ضمنی انتخابات میں فیصل آباد سے کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں آنے والے میاں زاہد سرفراز نے، جنہیں پیر صاحب پگارا سائنٹیفک سیاست دان کہتے تھے، پس منظر میں رہتے ہوئے ایم کیو ایم سے راہ و رسم بڑھائی اور بالآخر مہاجر قومی موومنٹ کو مبینہ طور پر آرمی چیف کی شہ پر وفاقی حکومت سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایم کیو ایم کا آئی جے آئی سے معاہدہ ہوا جس پر نوازشریف، میاں زاہد سرفراز، ڈاکٹر عمران فاروق، امین الحق کے دستخط ہوئے۔ اس سے پہلے الطاف حسین نے صدر مملکت غلام اسحاق خان سے طویل ملاقات میں اپنے مسائل پیش کیے تھے اور ایم کیو ایم نے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
23 اکتوبر 1988ء کو جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بنے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا، 86 ارکان قومی اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد چودھری شجاعت حسین اور میاں زاہد سرفراز نے اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا کے اسمبلی کی مسجد میں نوافل ادا کیے۔ اسی شام میاں زاہد سرفراز، چودھری شجاعت، چودھری عبدالغفور اور دیگر نے ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس میں موجود صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عمران فاروق اور امین الحق بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے تحریکِ عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا۔
اسپیکر ملک معراج خالد نے اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی قرارداد منظور کر کے بحث اور ووٹنگ کے لیے یکم نومبر کی تاریخ متعین کر دی۔ یکم نومبر کو قرارداد کے حق میں قائد حزب اختلاف غلام مصطفی جتوئی، مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹر عمران فاروق، بیگم عابدہ حسین نے تقاریر کیں، بے نظیر بھٹو نے جوابی تقریر کی۔ اس سے پہلے اجلاس کے آغاز میں ہی پیپلزپارٹی کے ایک رکن جو چودھری برادران کے قریبی عزیز تھے، اپوزیشن بینچوں سے اٹھے انہوں نے روتے ہوئے واپس حکومتی بینچوں پر جانے کا اعلان کیا۔ ووٹنگ کا مرحلہ آیا، نتیجے کے مطابق قرارداد کے حق میں 237 میں سے 107 ووٹ آئے۔ جبکہ تحریک کی کامیابی کے لیے 219 ووٹ درکار تھے۔
(جاری ہے)