نفسیات کاعلم انسانی رویوں کے تعامل کے مطالعے کا نام ہے۔ماہرین نفسیات سمجھتے ہیں کہ تعلیم، خاندان،معاش اور سماجی حالات وہ عوامل ہیں جن کا اثر انسانی شخصیت کی پرداخت اور اس کے سوچنے اور برتنے کے انداز اور اس کے لائحۂ عمل اور طرز فکر میں نمایاں ہوتا ہے۔
ہمارے علما کے طبقے کے مجموعی behavior کو سامنے رکھ کر اگر ان کی نفسیات کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ صاف محسوس ہوگا کہ خلیفہ منصور کے عہد سے جب انھوں نے عدلیہ کی باگ سنبھالی اور یہ طبقہ اقتدار میں بالواسطہ شریک ہوگیا تو جس طرح ان کی دینی فکر پر نظم قائم رکھنے کے لیے تقلید اور ریاستی قوانین کی تشکیل میں منطقی سوچ کا اثر نمایاں ہوا، بالکل ایسے ہی اپنی بات منوانے میں تحکم کا جذبہ اور لوگوں کے بارے میں فیصلہ دینے کی نفسیات نے بھی جنم لیا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ،ان کی ہر راے حتمی ،ان کی ہر بات قول فیصل اور ہر فیصلہ حرف آخر ہے۔ اور اگر کوئی ان کے نقطۂ نظر کا قائل نہیں تو گویا اب وہ باغی، گم راہ اور منحرف ہوگیا ہے۔جس کی بات کو دبایا جائے گا، لوگوں میں ڈسکریڈٹ کیا جائے گا اور اسے نمونہ عبرت بنانا اپنی حق پرستی اور سچائی کااولین تقاضا سمجھا جائے گا۔
یہ وہ سوچ تھی جو کم و بیش ایک ہزار سال میں طاقت کے تہذیبی پس منظر سے پیدا ہو کر ان کی نفسیات کا جزو لا ینفک بن چکی تھی۔
لیکن زمانہ بڑا صراف ہے، ستم یہ ہوا کہ جس ماحول نے انھیں یہ رویہ اپنانے کی مہمیز فراہم کی تھی، وہ عثمانیوں اور مغلوں کے خاتمے کے ساتھ یک دم ختم ہوگیا۔دنیا میں عالمی طاقتوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا چنانچہ اب جناب شیخ نہ قاضی القضات رہے، نہ دربار عالی کےمشیر خاص۔ زندگی کی تلخیاں ان کی منتظر تھیں ۔ان حقائق کے ساتھ جی کر علما کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ غور کرتے کہ دین نے ان پر کیا ذمے داری عائد کی ہے اور ان کا مقام ایک ناصح سے بڑھ کر کچھ نہیں۔وہ داعی ہیں،قاضی نہیں، لیکن خوے بادشاہی کہاں جاتی ہے۔ انھوں نے ہوا کے مخالف چلنے کا فیصلہ کیا اور اپنی عظمت رفتہ کی یافت میں بقیہ دن گزارنے کا عزم کر لیا ۔اور وہ مقام جو ان سے چھن گیا تھا اس کی یاد تازہ رکھ کر اپنی نفسیاتی تسکین کرنے لگے۔
لہٰذا اب ان کے ہاتھ میں یہ آخری تین ہتھیار بچے تھے جو اس مقام گم گشتہ کی یادوں میں دم بھر سکتے تھے۔
ان میں سے پہلا ہتھیار ہے ’’حق تکفیر‘‘۔
ہمارے علما یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے کفر و ایمان کا فیصلہ کر کے انھیں کسی ماحول میں اجنبی کر دینے کی یہ صلاحیت اور کسی کے پاس نہیں۔یہ انھی کی طاقت کا مظہر ہے ۔نظم ریاست میں وہ بھلے شریک نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود ریاست کے سربراہ تک کے ایمان کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی یہ حیثیت مان کر ان سے معاملہ کیا جانا چاہیے!
دوسرا ہتھیار ہے حلت و حرمت کی authorityکا۔
کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پہننے لگانے کی اشیا تک ،حرام وحلال کا فیصلہ ان کے قلم سے ہوگا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ وہ عدالتوں میں بیٹھ کر یہ فیصلے کرنے کا امکان کھو چکے ہیں، لیکن لوگ اب بھی خود کو مجبور محض سمجھ کر ان کے مدارس کی سلطنتوں میں مودب حاضر ہوں اور ان کی تصویب سے اپنے آلو اور پرفیوم حلال کروائیں،اور اپنے عقیدہ اور ایمان کی سند لیں۔
آخری ہتھیار ہے لوگوں کے تقویٰ کی پیمائش۔
تیسرا اور آخری ہتھیار ہے لوگوں کے تقویٰ کی پیمائش، ان کی دینی حیثیت کی تعیین اور ان کے راسخ العقیدہ ہونے اور ان کے مذہبی تشخص کی تعیین ہے۔ علما یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کی دینیskills کو چیلنج کر کے یہ باور کروا سکتے ہیں کہ یہ نہایت کم زور مسلمان ہیں، لہٰذا ان کی صحیح بات بھی بے وزن ہے۔وہ نماز میں صحیح ہاتھ باندھنے کی تفتیش ہو یا قرآن کی تلاوت میں غنہ اور سکتے کی غلطی نکالنے کی کوشش ،داڑھی ناپنا ہو،گستاخی کا کوئی الزام لگانا ہو یا پھر مغربی فکر سے مرعوب ہونے کا طعنہ دینا ہو، یہ وہ ہتھیار ہیں جو ان کی ہیبت پورے معاشرے پر قائم رکھے ہوئے ہیں۔
گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایک احمدی ملزم کے مقدمے میں جب انفرادی طور پر اظہار رائے کا وقت آیا اور چیف جسٹس نے انفرادی رائے پیش کرنے والوں کو موقع دینے کی بات کی اور فہرست میں جناب عمار خان ناصر صاحب کا نام بول کر پوچھا کہ کیا یہ موجود ہیں؟ یہاں حاضرین میں سے متعدد علما اکٹھے ہو گئے اور عدالت سے کہا کہ انفرادی طور پر کسی کو نہ سنا جائے اور صرف اداروں کے نمائندوں کو موقع دیا جائے۔ اس پر کافی رد وقدح ہوتی رہی۔ چیف جسٹس کہتے رہے کہ آج ہم سب کو سننا چاہ رہے ہیں ، لیکن مذہبی نمائندے اور بعض وکلا یہ کہتے رہے کہ اس سے فیصلہ متنازع ہو جائے گا۔ آخر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر آپ حضرات اس سے متفق ہیں کہ ہم کسی بھی انفرادی رائےکو یہ موقع نہ دیں؟ علما نے کہا کہ ٹھیک ہے، باقی افراد کو بھی نہ سنا جائے، لیکن عمار ناصر کو بالکل یہ موقع نہ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
یہ سب سن کر مجھے اس طبقے پر بہت ترس آیا کہ انسان اپنی متاع گم گشتہ کی یافت میں جیے تو کیا بن جاتا ہے۔وہ دلیل کے سامنے آنے سے خوف کھاتا ہے۔کیونکہ اس کے نظام فکر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ساتھ ہی اس بات پر بھی شرح صدر ہوگیا کہ مسائل احمدیت، توہین مذہب ورسالت سے اوپر اٹھ کر بقا کی جنگ بن چکے ہیں۔
علما کو یہ شدید احساس ہےکہ اگر انھوں نے اپنا وجود باقی رکھنا ہے تو یہ تین ہتھیار ہیں جنھیں ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔یہ گئے تو وہ گئے۔
ہمارے اس تجزیے پر کوئی سوال ہو تو مغرب میں جا کر ’’کلیسا‘‘ سے پوچھ لیں، انھوں نے بھی اپنا زوال انھی مراحل سے گزر کر طے فرمایا ہے۔