ہمارا مذہبی طبقہ اور خاص کر مولانا فضل الرحمن صاحب مبارک ثانی کیس کی وجہ سے قاضی فائز عیسی کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں حالانکہ قاضی صاحب نے اس کیس میں دینی حلقوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا پہلا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ مبارک ثانی کیس کے پہلے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے واضح طور پر جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ طاہر نقاش کیس SC 2022 کا حوالہ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا طاہر نقاش کیس میں دیا گیا فیصلہ آج بھی پوری طرح موجود ہے مگر ہمارے مذہبی طبقے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
طاہر نقاش کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا تھا کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 295 سی کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کوئی عمل ہو جس سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر حضور ﷺ کے مقدس نام کی بے حرمتی کی جائے۔ طاہر نقاش کیس میں عبادت گاہ کے اندر کلمہ کا آویزاں کرنا، جس میں اسم گرامی حضرت محمد ﷺ موجود ہے، اس جرم کا حصہ نہیں بنتا۔ ایک احمدی کے کلمہ پڑھنے کے دوران جو خیالات ہوتے ہیں، وہ 295 سی کے تحت قابل سزا نہیں، جب تک کہ وہ کوئی ایسا کھلم کھلا عمل نہ کرے جو حضور ﷺ کے نام کی بے حرمتی کے زمرے میں آئے۔
ہمیں جسٹس منصور علی شاہ کے اس فیصلے سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں، لیکن یہ فیصلہ مولانا فضل الرحمن اور ختم نبوت پر کام کرنے والی مذہبی جماعتوں کے موقف کے بالکل خلاف ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 260 سب آرٹیکل 3 اگرچہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے، مگر وہ انہیں پاکستان کے شہری حقوق سے محروم نہیں کرتا۔ آئین سب شہریوں کو برابر حقوق دیتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
اب آپ خود غور کر لیں کہ مبارک ثانی کیس میں مذہبی جماعتوں کا موقف یہی تھا کہ جب تک قادیانی خود کو غیر مسلم قبول نہ کر لیں اس وقت تک ان کے غیر مسلم کے طور پر آئینی حقوق کی بات کرنا درست نہیں ہے۔ مگر جسٹس منصور انسداد توہین رسالت کے قوانین سے متعلق مولانا فضل الرحمن کے موقف سے الگ خیالات رکھنے کے باوجود مولانا کے لیے نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ مولانا انہیں جیف جسٹس بنانے پر مصر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے پرسوں رات پی ٹی آئی کی قیادت کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جس استہزائیہ انداز میں قاضی فائز عیسی کا ذکر کروایا وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ کوئی بتائے کہ ایک طرف مولانا جسٹس قاضی فائز عیسی سے اس لیے غیر مطمئن رہے ہیں کہ انہوں نے مبارک ثانی کیس مشہور موقف کے خلاف پہلا فیصلہ کیوں دیا تھا مگر دوسری طرف مولانا طاہر نقاش کیس کا فیصلہ کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
آخر یہ تضاد کیوں ہے کہ مولانا ایک ایسے جج کی حمایت میں سرگرم ہیں جو معروف معنوں میں انتہائی لبرل اور غیر ملکی فنڈڈ این جی اوز کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اس جج کو امریکی و برطانوی ادارے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ اس جج کی حمایت اگر کوئی لبرل شخص کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر مولانا کس کی زبان بول رہے ہیں؟
یہی وہ زبان ہے جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن اس وقت فواد چودھری جیسے بدبودار لبرل شخص کے پسندیدہ سیاسی راہنما بن چکے ہیں۔ مشرف کی حمایت میں آج بھی رطب اللسان فواد چودھری پاکستان کے آئین و ریاست کے اسلامی تشخص کا کھلم کھلا نقاد رہا ہے۔ وہ مدارس اور دینی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے اخلاق کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے۔ ملا، مولوی، ڈیزل اور اس طرح کی ہفوات فواد چودھری کے لیے معمول کی باتیں تھیں مگر آج وہی فواد چودھری مولانا کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے۔ یہی حال سلمان اکرام راجا کا ہے کہ موصوف اپنے الٹرا لبرل خیالات کی وجہ سے مذہبی طبقے سے ہمیشہ الرجک رہے ہیں مگر آج انہیں مولانا کی شکل میں ایک مسیحا نظر آ رہا ہے۔
کیا یہ ایک محض اتفاق ہے کہ ساری لبرل لابی ایک لبرل جج کی حمایت میں مولانا کے ہمراہ سرگرم عمل ہوگئی ہے؟