مشرقِ وسطیٰ ایک عرصے سے تنازعات اور خونریزی کا شکار ہے۔ فلسطین، اسرائیل، لبنان اور دیگر خطے آج بھی بدامنی کے اندھیروں میں گِھرے ہوئے ہیں۔ ان تنازعات کی جڑیں تاریخی، سیاسی اور مذہبی عوامل میں گہری ہیں، مگر بدقسمتی سے مذہب، جو اتحاد اور ہم آہنگی کا ذریعہ بن سکتا ہے، زیادہ تر اِن مسائل کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں چند ایسے اقدامات بھی ہوئے ہیں جو مذہب کو مسئلے کی بجائے حل کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں قوانین بناتی ہیں، ممالک امن معاہدے کرتے ہیں، اور بین الاقوامی معاہدے طے پاتے ہیں، لیکن ان میں مذہبی رہنماؤں کو مشورے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ابراہم اکارڈز(Abraham Accords) جیسے معاہدے کیے گئے، مگر اس عمل میں مذہبی قیادت کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔
یہ رویہ اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اسرائیل میں تقریباً 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی حد تک مذہبی رجحان رکھتی ہے، اور خطے کے مختلف مذاہب کے رہنما اپنے اپنے معاشروں میں سب سے زیادہ معتبر شخصیات سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان رہنماؤں کو امن مذاکرات میں شامل نہ کیا جائے تو پائیدار سیاسی حل کی امید کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس مشکل صورتحال میں یونیورسٹی آف حیفہ نے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔ رواں سال، یونیورسٹی کے "لیبارٹری برائے مذہبی علوم” نے اسرائیل کی وزارتِ داخلہ کے تعاون سے مختلف مذاہب کے بیس اہم رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ جس کے نتیجے میں یہودی، مسلمان، عیسائی اور دروز رہنماؤں نے باہمی احترام، یکجہتی اور تعاون پر مبنی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ حیفہ جیسے متنوع شہر میں اتنی بڑی تعداد میں مذہبی رہنما عوامی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لیے آگے بڑھے۔ اعلامیہ میں یہ کہا گیا:
ہم، حیفہ کے یہودی، مسلمان، عیسائی اور دروز کمیونٹیز کے نمائندگان، اس مشکل اور تناؤ کے دور میں ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات اور احترام کے فروغ کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں تاکہ ہمارے شہر کی متنوع زندگی کے تانے بانے کو برقرار رکھا جا سکے۔ (مشترکہ اعلامیہ)
یہ اعلامیہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے، کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ رہنما ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ لیکن مذاکرات اور باہمی مکالمے کے ذریعے یہ ممکن ہوا۔
پروفیسر یوریئل سائمنسون (Uriel Simonsohn) کے مطابق یہ کامیابی آسان نہیں تھی۔ ایک موقع پر، ایک یہودی ربی نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، جب تک کہ اس میں حماس کی مذمت شامل نہ کی جائے۔ دوسری طرف، ایک امام مسجد نے کہا کہ اس طرح کی مذمت ان کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ مغربی کنارے یا مشرقی یروشلم جائیں۔ لیکن جب ان دونوں رہنماؤں نے براہِ راست بات کی اور ایک دوسرے کے حالات کو سمجھا تو معاہدے پر دستخط کرنے کا راستہ نکال لیا۔
یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب مذہبی رہنما آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے بات کریں، تو مذہب تنازعے کے بجائے مکالمے اور مسائل کے حل کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے اس تجربے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مذہب، جو بسا اوقات تنازعات کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتا ہے، اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ امن اور ہم آہنگی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ حیفہ کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح مذہبی رہنما ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنی کمیونٹیز کو پائیدار امن کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
پاکستان، جہاں مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات اکثر خونی جھڑپوں میں بدل جاتے ہیں، کو بھی اس مثال سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ کرم، پارہ چنار، خیبر پختونخوا کے دیگر علاقے اور بلوچستان طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور بدامنی کا شکار ہیں۔ مذہب کے نام پر تنازعات نے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کیا بلکہ سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان اس وقت ریجنل شفٹ کے ایک اہم عمل سے گزر رہا ہے، جہاں بین الاقوامی اور علاقائی تعلقات نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کریں۔ مذہب کو آگ لگانے کا ذریعہ بنانے کی بجائے، اسے لگی آگ بجھانے کا ذریعہ بنائیں۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے مذہبی رہنما اور ادارے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور باہمی مکالمے کا آغاز کریں۔ اس مکالمے کا مقصد تنازعات کو ختم کرنا، معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا، اور مختلف برادریوں کے درمیان اعتماد کو بحال کرنا ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کے مذہبی و مسلکی رہنما کبھی جمع نہیں ہوتے، یہ ہوتے ہیں مگر اپنے اپنے تعصبات کو کبھی پس پشت ڈال کر جمع نہیں ہوئے۔ اب یہ ریت چھوڑ دینے کی ضرورت ہے کہ مشترکہ اجتماعات میں تو سبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے نظر آئیں مگر اپنی اپنی مجالس میں تعصبات اور نفرت کو فروغ دیں۔
اگر پاکستان کے مذہبی رہنما اپنی برادریوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو یہ ملک کے امن و استحکام کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔ پاکستان کی مذہبی اور مسلکی تنوع اس کی طاقت بن سکتی ہے، اگر ہم اس کو صحیح انداز میں استعمال کریں۔
لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ حکومت، تعلیمی ادارے، اور مذہبی تنظیمیں ایک مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دیں، جہاں مذہب کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ یہ قدم نہ صرف اندرونی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط اور پُرامن ملک کے طور پر پیش کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
پاکستان کے مذہبی رہنما، اپنے اثر و رسوخ اور قیادت کے ذریعے، اپنے ملک کو امن، ترقی اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے صرف ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے۔ آج، ہم سب کو اس راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔