شام میں حالیہ واقعات نے خطے کی سیاست میں ایک ڈرامائی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ حزب اختلاف کی برق رفتاری سے پیش قدمی اور دمشق جیسے تاریخی شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بشار الاسد کا اقتدار ختم ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
دمشق، جو اسلامی تاریخ میں خلافت امویہ کا مرکز رہا، ہمیشہ سیاسی، تہذیبی، اور جغرافیائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اب، یہ شہر ایک بار پھر تبدیلی کی علامت بن گیا ہے، جہاں حزب اختلاف، خاص طور پر ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس)، نے اپنے مضبوط نظم و ضبط اور حکمت عملی کے ذریعے ایک نئی امید پیدا کی ہے۔
بشار الاسد کے اقتدار کو شام کی تاریخ کے سب سے زیادہ ظالمانہ ادوار میں شمار کیا جائے گا۔ ان کے دور میں لاکھوں شہری مارے گئے، بے گھر ہوئے، اور انسانی حقوق کی شدید پامالی دیکھنے میں آئی۔ دمشق، جو کبھی تہذیب اور علم کا گہوارہ تھا، اسد حکومت کی بے رحمانہ پالیسیوں کے باعث جنگ اور تباہی کا مرکز بن گیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس تبدیلی کو "تاریخی موقع” اور "خطرے و بے یقینی کا لمحہ” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، شام میں اسد حکومت کے خاتمے میں امریکی پالیسی کا بھی کردار رہا، خاص طور پر ایران کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے اور روس کو تنہا کرنے کے اقدامات نے اس تبدیلی کو ممکن بنایا۔ تاہم، بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حزب اختلاف کے تمام دھڑوں کے ساتھ محتاط رویہ اپنانا ہوگا کیونکہ ان میں سے کچھ کے ماضی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہیں۔
بائیڈن کے بیان کے تناظر میں، شام کا مستقبل کئی امکانات اور خطرات سے جڑا ہوا ہے:
- امریکی افواج کی شام کے شمال مشرق میں موجودگی اور پڑوسی ممالک جیسے اردن، لبنان، اور عراق کے ساتھ تعاون خطے میں استحکام کے لیے اہم ہوگا۔
- حیات تحریر الشام، جس نے حالیہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی لا کر ایک مضبوط اور جامع حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
- حزب اختلاف کی قیادت کو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر اعتماد پیدا کرنا ہوگا تاکہ معاشی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
- بائیڈن انتظامیہ کا کمزور اختتام اور صدر ٹرمپ کی نئی قیادت شام کی پالیسی میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ایچ ٹی ایس کے ساتھ تعلقات اور انہیں ایک ممکنہ شراکت دار کے طور پر تسلیم کرنا ایک اہم سوال ہوگا۔
دمشق، جو کبھی علمی اور تہذیبی ترقی کی علامت تھا، اب ایک بار پھر تاریخ کے نئے دوراہے پر کھڑا ہے۔ حزب اختلاف، خاص طور پر ایچ ٹی ایس، کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کو امن، ترقی، اور مساوات کا گہوارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ لمحہ ایک تاریخی موقع بھی ہے اور ایک بڑا چیلنج بھی، جس میں عوام کی امنگیں اور عالمی سیاست کے پیچیدہ عوامل شامل ہیں۔
شام کے عوام، جنہوں نے دہائیوں تک جبر اور جنگ کے سائے میں زندگی گزاری، اب ایک نئی امید کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے ایک مستحکم اور پرامن مستقبل کی تعمیر ہی اس جدوجہد کا حقیقی صلہ ہو سکتی ہے۔