قطر اور پاکستان کے درمیان تعلقات نہ صرف تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تعلقات مزید گہری شراکت داری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ مجھے گذشتہ روز قطر کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کے موقع پر دیکھنے کو ملا، جہاں میں نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی گہرائی کو محسوس کیا بلکہ اس موقع پر کی جانے والی تقریبات اور تقاریر سے ان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کئی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔
قطر کے قومی دن کی تقریب ہر سال 18 دسمبر کو منائی جاتی ہے، جس کی تاریخی اہمیت اس دن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جب قطر نے 1878 میں اپنے حکمران شیخ جاسم بن محمد آل ثانی کی قیادت میں مکمل خودمختاری حاصل کی تھی۔ یہ دن قطری قوم کے لیے اپنے ماضی کی کامیابیوں اور مستقبل کے لیے امیدوں کا ایک سنگ میل ہے۔ اس دن کی اہمیت نہ صرف قطری شہریوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر موجود قطر کے دوست ممالک کے لیے بھی ہوتی ہے، جن میں پاکستان اہم ہے۔
اس تاریخی تقریب میں پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف نے خطاب کیا، جس میں انہوں نے قطر کی شاندار ترقی اور دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ وزیرِ اعظم نے خاص طور پر امیرِ قطر، شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی قیادت کو سراہا، جس کی بدولت قطر نے عالمی سطح پر اپنے اثرات کو مزید مستحکم کیا۔ انہوں نے قطر کے فٹبال ورلڈکپ 2022 کے کامیاب انعقاد کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ قطر کی غیر معمولی قیادت اور عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے اپنے حالیہ دورے کا بھی ذکر کیا اور اس دوران پاکستانی ثقافت کی نمائش کو یاد کیا، جس میں پاکستانی فنون، دستکاری، اور دیگر ثقافتی پہلو نمایاں تھے۔ اس نمائش کا اہتمام کرنے پر وزیرِ اعظم نے شیخہ المیاسہ کی محنت کو سراہا۔ وزیرِ اعظم نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پاکستان قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس کے لیے اقتصادی، تجارتی، اور ثقافتی شعبوں میں مزید تعاون کی ضرورت ہے۔
اس تقریب میں قطر کے سفیر، جناب شیخ علی بن مبارک الخاطر نے بھی خطاب کیا، جس میں انہوں نے پاکستان اور قطر کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات تاریخی، ثقافتی، اور اقتصادی اعتبار سے نہایت اہم ہیں اور باہمی احترام کے اصول پر قائم ہیں۔ سفیر نے دونوں ممالک کے مابین تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، اور ثقافت میں ہونے والی ترقی کو سراہا اور کہا کہ قطر پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے۔
قطری سفیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قطر اور پاکستان کے مابین تعلقات صرف حکومتوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی دونوں قوموں کے درمیان گہری دوستی اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہے۔ اس موقع پر قطر کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی، خاص طور پر توانائی، تجارت، اور سیاحت کے شعبوں میں۔
قطر اور پاکستان کے تعلقات کا آغاز 1973 میں سفارتی تعلقات کے قیام سے ہوا، اور اس کے بعد دونوں ممالک نے کئی اہم شعبوں میں اپنے روابط کو مستحکم کیا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ان تعلقات میں بے شمار مواقع آئے ہیں، خاص طور پر 1999 میں شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے پاکستان کے دورے اور 2015 میں شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعاون کو نئی بلندیوں پر پہنچایا گیا۔ میں امیرِ قطر کا اسلام آباد کا تاریخی دورہ اس شراکت داری کا ایک اور اہم سنگ میل تھا، جس کے دوران توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں متعدد معاہدے طے پائے۔
قطر اور پاکستان کی اقتصادی شراکت داری دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک مضبوط ستون ہے۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 12.8 ارب قطری ریال تک پہنچ چکا ہے۔ قطر نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 3 ارب ڈالر کا پیکج دیا، جس میں قرض اور براہِ راست سرمایہ کاری شامل تھی۔
قطر سے مائع قدرتی گیس کی درآمد اور پاکستان کی جانب سے چاول، چمڑا، ٹیکسٹائل اور گوشت کی برآمدات نے تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں 2021 کے طویل مدتی معاہدے نے دوطرفہ تعاون کو مزید تقویت بخشی۔
قطر نے ہمیشہ قدرتی آفات کے دوران پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، خاص طور پر 2022 کے سیلاب کے دوران جب قطر نے فوری طور پر پاکستان کو امداد فراہم کی۔ قطر نے متاثرہ علاقوں میں صحت کی سہولتیں فراہم کیں اور رہائش کے منصوبے بھی شروع کیے۔ اسی طرح، قطر فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے تحت پاکستان میں کئی ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں، جن میں پولیو کے خاتمے کا قومی پروگرام بھی شامل ہے، جس سے لاکھوں بچوں کو فائدہ پہنچا۔
قطر اور پاکستان کے تعلقات ایک اہم اور کامیاب شراکت داری کی مثال ہیں، جو نہ صرف اقتصادی اور سیاسی سطح پر بلکہ انسانی ہمدردی کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط روابط کا مظہر ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان اور قطری سفیر کی تقریریں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عزم اور تعاون کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان تعلقات کا مستقبل روشن ہے اور یہ نہ صرف پاکستان اور قطر کے لیے بلکہ عالمی سطح پر بھی دو طرفہ تعلقات کی ایک اہم مثال بن چکے ہیں۔
قطر کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کے دوران ایک خاص منظر نے میری توجہ اپنی طرف کھینچی۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والی خاتون نے مکمل عبایا پہن رکھا تھا اور اس کے چہرے پر پردہ تھا، جو قطر کی ثقافت کا ایک نمایاں حصہ ہے۔ اس لباس میں وہ نہ صرف قطر کے ثقافتی تشخص کی عکاسی کر رہی تھیں، بلکہ اس بات کا بھی اظہار تھا کہ قطر میں خواتین کی تقدیر اور ان کی شناخت کے لحاظ سے ایک مضبوط روایتی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ، قطری خواتین جیسے شیخہ موضہ اور شیخہ ماسیہ سمیت دیگر کئی خواتین جو مختلف شعبوں میں قیادت کے کردار ادا کر رہی ہیں، یہ واضح کرتی ہیں کہ قطر کی ثقافت میں خواتین کی ترقی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ ان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے کلچر کو چھوڑنا ضروری نہیں، اور نہ ہی مغربی کلچر کو واحد ترقی کا ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کی کامیابی اور ترقی محض ثقافت سے متصادم نہیں، بلکہ اپنے کلچر کے ساتھ بھی ان راستوں پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔