مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے جاری بحث کو محض وقتی تنازعہ کے بجائے ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بحث دراصل کسی مخصوص مسلکی شناخت کی نمائندگی کے حق اور اس بنیاد پر طاقت کے ڈھانچوں (Power Structures) کے ساتھ تعامل کی اجارہ داری کے خاتمے کے دوران پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل کی بازگشت ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر جاری گفتگو بڑی حد تک ایک خاص مسلک کے مدارس کے بارے میں ہو رہی ہے، لیکن اس کا تعلق کسی ایک مسلک تک محدود نہیں ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی بھی مسلکی یا فکری شناخت رکھنے والے گروہ کی نمائندگی کا حق کسے حاصل ہے؟ کیا ایسا حق نمائندگی جو وقت کے ساتھ کسی مخصوص شخصیت، جماعت یا ادارے کے حق میں تسلیم کر لیا گیا ہے، کو نئے سرے سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے؟ شرعی اور قانونی اعتبار سے ایسا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، لیکن سیاست اور طاقت کی کشمکش میں اس طرح کے اقدامات اکثر بغاوت کے مترادف سمجھے جاتے ہیں۔
ہماری دانست میں یہ بحث نہ تو مدارس پر حکومتی کنٹرول کی ہے اور نہ ہی بیرونی دباؤ کی۔ اگر حکومت واقعی کنٹرول کرنا چاہے تو وزارت تعلیم یا کسی اور وزارت کا فرق بے معنی ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کئی بڑے مدارس عرصہ دراز سے بیرونی فنڈنگ کے تحت مختلف منصوبوں میں شامل رہے ہیں، اور اس سے ان کے تعلیمی منہج پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ریاستی اداروں کے ساتھ قریبی اشتراک سے پیغام پاکستان جیسی دستاویز پر بڑے مدارس سے وابستہ شخصیات نے نہ صرف دستخط کیے بلکہ اس بیانیہ کو زبانی عملی طور پر بھی ادارتی سرپرستی میں فروغ دیا۔ اگر ان اقدامات سے کوئی دباؤ نہیں آیا اور مدارس نے اپنے آزادی کو سلب نہیں ہونے دیا تو اب بھی اس حوالے سے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
صدر پاکستان کی جانب سے رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کی واپسی پر اٹھائے گئے اعتراضات البتہ بہت بھونڈے انداز میں بیان کیے گئے ہیں جس سے کئی اشکالات پیدا ہو رہے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر مدارس کو ایک کلی شناخت کے طور پر دیکھا جائے اور ہر مسلک کے مدارس کو اس کلی شناخت کے تحت جزوی شناخت کی پراکسی مانا جائے، تو اس شناخت کے ساتھ ریاستی اداروں سے تعامل اور نمائندگی کا حق کسے حاصل ہوگا؟ اس تعامل کی بنیاد پر ہی ریاستی نظام میں نمائندگی، شمولیت، مزاحمت اور مفادات جیسے امور طے ہوتے ہیں۔ ان تک یہ نمائندگی مخصوص افراد، جماعتیں اور ادارے کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں اداروں میں نمائندگی اور ریاستی طاقت میں شراکت سمیت کئی امور طے پاتے رہے ہیں۔ اگر اس حقِ نمائندگی کو کمزور کرنے یا تحلیل کرنے کی کوشش کی جائے، تو اس کے جواب میں پیدا ہونے والا ردعمل فطری ہے۔ چاہے اسے جذباتیت کہا جائے یا کسی فریق کی بلیک میلنگ، لیکن جب اتنے بڑے مفادات داؤ پر لگے ہوں تو ردعمل کی شدت ناقابل فہم نہیں ہے۔