اسلامی یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں بدانتظامی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کے جج ڈاکٹر قبلہ ایاز نے چیف جسٹس پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط ارسال کیا ہے۔ خط میں یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال اور قائم مقام ریکٹر ڈاکٹر مختار احمد کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خط ملاحظہ فرمائیں
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان
السلام علیکم
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کی سرکاری جامعات میں بدانتظامی اور علمی زوال کے مسائل کے حل کے متعلق ایک شاندار فیصلہ دیا ہے۔ دو جامعات کے متعلق خصوصاً معلوم ہوا کہ وہ تباہی کے دہانے پر ہیں: ایک ملتان کی این ایف سی انسٹی ٹیوٹ اور دوسری، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن کے طور پر کام کیا ہے۔ میری مدت ختم ہونے کے بعد اب میں اس بورڈ کا رکن نہیں ہوں، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے میں اب اس یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہوں۔ میں گواہی دے سکتا ہوں کہ علم کی یہ عظیم درسگاہ تقریباً برباد ہونے کو ہے۔ یونیورسٹی کی پچھلی انتظامیہ بورڈ آف ٹرسٹیز اور بورڈ آف گورنرز کے اجلاس نہیں بلاتی تھی جبکہ یہ اجلاس منعقد کرنا اس پر قانون کی رو سے لازم تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مذکور ہے۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کی ریکٹر کو معطل کرکے ایچ ای سی کے چیئرمین کو عارضی چارج دیا گیا۔ ان سے توقع یہ تھی کہ وہ نظام میں بہتری لائیں گے اور یونیورسٹی کے امور کو یونیورسٹی کے آرڈی نینس اور قواعد کے مطابق چلائیں گے۔ تاہم ہمیں شدید مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ پورے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ رہے ہیں۔
انھوں نے 6 دسمبر کو بورڈ آف گورنرز کا اجلاس تو بلالیا اور پھر اس کی ایک اور نشست 10 دسمبر کو بھی رکھی، لیکن ان دونوں نشستوں میں ان کا رویہ آمرانہ تھا اور نہ صرف دوسرے ارکان کےلیے، بلکہ معزز سپریم کورٹ اور اس کے فیصلے کےلیے بھی تذلیل پر مبنی تھا۔ مجھے اور بعض دوسرے ارکان کو انھیں ان کی حدود اور ان کی قانونی ذمہ داریاں یاد دلانی پڑیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جن سنگین مسائل کی نشاندہی کی، ان میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ پچھلی ریکٹر نے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس منعقدہ 11 دسمبر 2023ء کے منٹس جاری نہیں کیے تھے۔ ہم نے چیئرمین ایچ ای سی کو اس کی یاددہانی کرائی، لیکن انھوں نے تاحال ایسا نہیں کیا۔
سپریم کورٹ کا ایک اور حکم یہ تھا بورڈ آف گورنرز صدرِ جامعہ کی تعیناتی کےلیے ’بہت کڑے اور شفاف انداز میں‘ معیارات طے کرے، لیکن انھوں نے ہمیں ان دو نشستوں میں معیارات کا مسودہ ہی نہیں دیا اور صرف ملٹی میڈیا پر چند سلائیڈ دکھائے۔


بورڈ آف گورنرز کی ان دو نشستوں کے منٹس ابھی تک ضبطِ تحریر میں نہیں لائے گئے؛ ایک تیسری نشست 17 دسمبر کو منعقد ہونی ہے؛ صدرِ جامعہ کی تعیناتی کے معیارات ابھی تک بورڈ آف گورنرز نے تیار ہی نہیں کیے؛ اس کے باوجود بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس 23 دسمبر کو رکھ دیا گیا ہے، اور وہ بھی ریاض میں۔ اس اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدرِ جامعہ کی تعیناتی کردی جائے۔
بورڈ آف ٹرسٹیز کے قواعد نے طے کیا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کا ایجنڈا اجلاس سے 15 دن قبل ارکان کو بھیجا جائے گا، لیکن چیئرمین ایچ ای سی نے ابھی تک ایجنڈا کسی کو نہیں بھیجا کیونکہ اس سے قبل ابھی تو بورڈ آف گورنرز کے منٹس کو حتمی شکل دینی ہوگی۔
مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیوں اتنی عجلت میں اور کیوں سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی پر تلے ہوئے ہیں، جبکہ اس فیصلے میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ صدرِ جامعہ کی تعیناتی کےلیے معیارات کی منظوری کے بعد باقاعدہ اشتہار کے ذریعے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔
اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ پچھلے سال منعقد کیے گئے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کے منٹس، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی رپورٹ اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے آئندہ اجلاس کا ایجنڈا طلب کرنے پر غور کریں۔ آپ رجسٹرار کو یہ ہدایات دینے پر بھی غور کریں کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس تب تک ملتوی کیا جائے جب تک مذکورہ بالا دستاویزات آپ کو فراہم نہ کی جائیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس پہلے ہی اس اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرچکے ہیں۔
آپ کی بروقت مداخلت اس عظیم درسگاہ کو مکمل تباہی سے بچانے میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کا مخلص
ڈاکٹر قبلہ ایاز
ایڈہاک رکن، شریعت اپیلیٹ بنچ