اس مہینے ہم نے دیکھا کہ شام کے بہادر عوام اور باغی گروہوں نے کس طرح بشار الاسد کو اپنے وطن سے فرار پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک اہم موڑ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسد کے عیش و عشرت کے خاتمے کا آغاز ہے؟ کیا اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا؟ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے، لیکن وہ انصاف ابھی باقی ہے۔
اسد کے اقتدار نے شام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، اور آج یہ ملک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب شام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے—ایسا دور جہاں ترقی، امن، اور خوشحالی کو فروغ ملے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسد کی ہوسِ اقتدار اور ظلم و ستم نے انسانیت کی تاریخ پر جو بدنما داغ چھوڑے ہیں، انہیں مٹانا ممکن نہیں۔ پھر بھی، امید کے وہ چراغ جو ابھی بجھے نہیں، شام کے لیے روشنی کا سبب بن سکتے ہیں۔
2011 میں شروع ہونے والی جنگ نے شام کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ وہ بچے جو اس جنگ کی ابتدا اور اختتام کے ساتھ ساتھ ہر مرحلے کے مصائب کے گواہ بنے، ان کا معصوم بچپن ہمیشہ کے لیے چھن گیا۔ کیا ان کے خواب واپس لائے جا سکتے ہیں؟ کیا یتیم بچوں کو ان کے والدین سے ملایا جا سکتا ہے؟ کیا گمشدہ بہن بھائی دوبارہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے؟
کیا انسانیت کے خلاف جرائم کو معاف کیا جا سکتا ہے؟ کیا طاقتور مجرموں کو ان کی پشت پناہی کی بنیاد پر آزاد چھوڑ دینا انصاف کہلاتا ہے؟ ایسے مظالم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ انسانیت کو ہر طاقت، ہر سیاست، اور ہر مفاد سے بڑھ کر سمجھا جانا چاہیے۔
شام، جو کبھی امن اور خوبصورتی کا گہوارہ تھا، آج تباہ حال ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں خالد بن ولید جیسی عظیم شخصیات کی یادیں محفوظ ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جو دوبارہ اپنی عظمت حاصل کر سکتا ہے۔ آج یہ سرزمین ایک پرندے کی طرح ہے جس کے پر کاٹ دیے گئے اور جس کی آواز کو خاموش کر دیا گیا، لیکن یہ پرندہ دوبارہ اڑے گا، پہلے سے زیادہ اونچائیوں تک۔
بشار الاسد کا زوال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ طاقت، تعداد، اور وسائل سب وقتی ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ابرہہ کی فوج کو آسمان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور جنگِ بدر میں صرف 313 افراد نے ایک بڑی فوج کو زیر کیا۔ یہی سبق شام کے حالات میں بھی جھلکتا ہے۔
شام نے بہت دکھ جھیلے، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ملک ایک نئے آغاز کی جانب بڑھے۔ دنیا کو شام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا تاکہ یہ سرزمین دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے۔ یہ وقت ہے کہ شام اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ شام، جو کبھی امن و سکون کا استعارہ تھا، اب اپنی نئی پرواز کے لیے تیار ہے۔