اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ دو روز سے جاری عالمی سکول گرلز کانفرنس کا اختتام 12 جنوری 2025 کو جناح کنونشن سینٹر میں ہوا۔ کانفرنس میں مسلم دنیا کے متعدد اہم مذہبی رہنماؤں، سکالرز، اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر ’اعلانِ اسلام آباد‘ جاری کیا گیا، جس میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے جامع سفارشات پیش کی گئیں۔

کانفرنس کا پہلا سیشن علماء کرام کے لیے مخصوص تھا، جس کی صدارت رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے کی۔ اس سیشن میں ین الاقوامی فقہ اکیڈمی جدہ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قطب مصطفی سانو، مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر نظیر محمد عیاد، جمعیت علمائے ہند کے امیر مولانا محمد ارشد مدنی، یوگنڈا کے شیخ شعبان رمضان مباجی، مالدیپ کے وزیر برائے اسلامی امور ڈاکٹر محمد شہیم علی سعید، پاکستان کی مشہور مذہبی شخصیات وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین ، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر، علامہ محمد احمد لدھیانوی اور دیگر اہم علماء نے شرکت کی۔ اس نشست میں لڑکیوں کی تعلیم کے اسلامی پہلوؤں پر گفتگو کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر لڑکی کو تعلیم کا حق حاصل ہے۔

پاکستان کے وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے کہا کہ خواتین معاشرت میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، اور پیغمبر محمد صلى الله عليه وسلم نے عورتوں کے لیے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ "ایک تعلیم یافتہ عورت نسلوں کی نگراں ہوتی ہے، ایک ماں کے طور پر، وہ اپنے بچوں کی پہلی استاد ہوتی ہے، اور ایک تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں میں اقدار، اخلاقیات اور علم کی محبت پیدا کرتی ہے، جس سے معاشرت کے مستقبل کے رہنماؤں کی تشکیل ہوتی ہے۔” لڑکیوں اور عورتوں کے لیے علم کا حصول شریعت کے مقاصد اور عوامی مفاد کا تقاضا بھی ہے، کیونکہ تعلیم عورتوں کو معاشرتی ترقی میں فعال طور پر حصہ لینے کی طاقت دیتی ہے۔ چوہدری سالک حسین نے مزید کہا کہ "عورتوں کی تعلیم صرف فرد کی ترقی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک خوشحال اور ہم آہنگ معاشرت کی بنیاد ہے۔”
کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ایک اہم موقع تھا جس میں وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ’ تعلیم ایک معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، اور لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کرنا دراصل معاشرتی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’موجودہ دور کے بڑے چیلنجز میں لڑکیوں کی تعلیم شامل ہے، اور مسلم دنیا کو اس مسئلے کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔‘ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’غریب ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام مسلم ممالک اس مقصد کے لیے یکجا ہو کر کام نہ کریں۔‘

اس اجلاس میں نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی بھی شریک تھیں، جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے عالمی پیغام کو مزید اجاگر کیا۔ ملالہ نے کہا، "لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک حق نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کی ترقی کا ضامن ہے۔” ان کی شرکت نہ صرف اس کانفرنس کی اہمیت کو بڑھاتی ہے بلکہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک طاقتور پیغام بھی دیتی ہے۔
اس کے علاوہ کانفرنس کے دوران متعدد نشستیں منعقد ہوئیں جن میں دنیا بھر سے آئے سکالرز نے بچیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ ان سیشنز میں تعلیم کے بارے میں مختلف علمی مقالات پیش کیے گئے، جس میں مختلف ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کی صورتحال، ثقافتی اور سماجی چیلنجز، اور حکومتوں کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا۔
آج، 12 جنوری 2025 کو، کانفرنس کے اختتام پر چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے آخری سیشن میں شرکت کی اور ’اعلانِ اسلام آباد‘ جاری کیا۔ اس اعلامیے میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف اہم سفارشات پیش کی گئیں۔ اعلامیے میں حکومتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ تعلیمی وسائل کے لیے بجٹ میں اضافہ کریں، لڑکیوں کے لیے سکالرشپس فراہم کریں، اور جدید ڈیجیٹل مواد کی تیاری کریں تاکہ دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ممکن ہو سکے۔
کانفرنس میں شریک افراد نے اس بات پر زور دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس کا اثر مسلم ممالک کی پالیسیوں پر مرتب ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں ہیں۔ افغانستان جیسے ملک جہاں گزشتہ کچھ سالوں سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں، اس کانفرنس کے اثرات سے ممکنہ طور پر دباؤ محسوس ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت کے باعث افغانستان اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔
اس کانفرنس میں اہم مسلم ممالک جیسے افغانستان، قطر اور یو اے ای شریک نہیں ہوئے، جس پر تجزیہ کاروں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ تاہم، اس کے باوجود کانفرنس میں شریک ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا اور تعاون بڑھانا ہوگا۔

’اعلانِ اسلام آباد‘ مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ یہ اعلان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لڑکیوں کے تعلیمی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم معاشروں میں اس موضوع پر مزید اصلاحات کی راہ ہموار کرے گا۔ اس کانفرنس نے نہ صرف تعلیم کے حوالے سے اہم سفارشات پیش کی ہیں بلکہ عالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا ہے۔

انتہا پسندوں کی بنائی گئی ایک ویب سائٹ جو پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہی ہے، نے اس عالمی کانفرنس کے بارے میں الزام عائد کیا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کا افغانستان پر اپنا دباؤ بڑھانا اور افغانستان کی سیاسی آزادیوں کو سلب کرنا ہے۔ یہ اور دیگر الزامات بالکل خلاف حقیقت اور بے بنیاد ہیں۔ پاکستان افغانستان کا ایک ہمدرد دوست اور خیرخواہ پڑوسی ہے جس نے افغانستان کی ہر مشکل میں اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔ آج بھی لاکھوں افغانوں کا پاکستان میں موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے۔ رابطہ عالم اسلامی ایک اہم بین الاقوامی فورم ہے جو مسلمان ممالک کے درمیان اہم مسائل پر بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ کانفرنس کے مقاصد میں افغانستان کے عوام کے حقوق، خاص طور پر خواتین کی تعلیم اور انسانی بحران جیسے مسائل کو اجاگر کرنا اور اس کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا شامل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں موجودہ حکومت نے کچھ شعبوں میں ترقی کی کوششیں کی ہیں، لیکن افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں، جبکہ طالبان حکومت کے بین الاقوامی معاہدے کچھ اور تھے۔ طالبان نمائندوں نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہیں نہیں کریں گے۔ بچیوں کی تعلیم کو روکنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے منافی بھی ہے۔ پاکستان سمیت دیگر او آئی سی ممبر ممالک نے اس کانفرنس کو افغان عوام کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے اور اس کانفرنس میں اس کا مقصد افغانستان کی ترقی میں معاونت فراہم کرنا ہے نہ کہ اس پر سیاسی دباؤ ڈالنا۔ افغانستان کی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے استحکام کے لیے اپنے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان، افغانستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا احترام کرتا رہا ہے، اور پاکستان کسی بھی طریقے سے افغانستان پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کی مدد کے لیے کام کرنے پر تیار ہے، مگر ضروری ہے کہ افغانستان اپنے رویوں پر غور کرے۔