وفاقی حکومت کی جانب سے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے تحت "نیشنل انٹیلیجنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسیسمنٹ سینٹر” (نِفٹیک) کے قیام کا اعلان ایک خوش آئند پیش رفت ہے—کم از کم کاغذی سطح پر۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کی نئی لہر، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مسلسل دہشت گردانہ کارروائیاں، اور سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملے اس امر کے متقاضی ہیں کہ ریاست اب مزید وقت ضائع نہ کرے۔
شمالی وزیرستان میں اہلکاروں پر گھات لگا کر کیے جانے والے حملے، ڈیرہ اسماعیل خان اور گوادر میں ٹارگٹ کلنگ، اور بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ شدت پسند گروہ نہ صرف منظم ہو چکے ہیں بلکہ اب ان کی کارروائیاں زیادہ خطرناک اور وسیع ہو گئی ہیں۔
نیکٹا کی گورننگ بورڈ کے حالیہ اجلاس میں نِفٹیک کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر "پِفٹیک” مراکز کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ یہ تجویز مرکز اور صوبوں کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ اور خطرات کی مشترکہ جانچ کے لیے ایک مناسب سمت کا تعین کرتی ہے۔ تاہم، یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیکٹا ماضی میں بھی ایسے کئی "امید افزا” منصوبے شروع کر چکی ہے، جو عملی اقدام کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔
یاد رہے کہ 2016 میں منظور شدہ "جوائنٹ انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ” کو انٹیلیجنس ہم آہنگی کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دیا گیا تھا، مگر کچھ عرصے بعد وہ مکمل طور پر غیر مؤثر ہو گیا۔ اسی طرح 2018–2023 کی نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی، جس میں عسکریت پسندی کے خلاف غیر عسکری (non-kinetic) اقدامات کی بات کی گئی تھی، بھی محض دستاویز تک محدود رہی۔
اب جب کہ شدت پسندی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، ریاست انہی پرانے منصوبوں کی طرف لوٹ رہی ہے—لیکن اس بار ایک نئی ہنگامی کیفیت کے ساتھ۔
تاہم، اس سنگین صورتِ حال کا حل محض نئے ادارے بنانے یا مخفف تراشنے سے نہیں نکلے گا۔ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی ہمیشہ نئے ڈھانچے اور احکامات کے گرد گھومتی رہی ہے، مگر شدت پسندی کی جڑوں تک پہنچنے، پالیسیوں میں تسلسل لانے، اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
اگر حکومت واقعی نیکٹا کو متحرک بنانا چاہتی ہے تو اسے محض منظوری دینے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ نیکٹا کو ایک مکمل اختیارات رکھنے والا سول انسداد دہشت گردی ادارہ بنایا جائے۔ اسے ہر بار کسی سانحے کے بعد وقتی طور پر فعال کر کے دوبارہ غیر متعلق نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی صوبائی سطح پر انسداد دہشت گردی محکموں کو بھی مالی وسائل، تربیت اور خودمختاری دی جائے تاکہ وہ خطرات کی پیشگی نشاندہی اور روک تھام میں کردار ادا کر سکیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ شدت پسندی صرف ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا گہرا نظریاتی پہلو بھی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ بلوچستان اور ضم شدہ قبائلی اضلاع جیسے پسماندہ علاقوں میں دیرپا امن کے لیے مقامی شکایات کا ازالہ، مفاہمت، ترقی اور انتہا پسندی سے نجات کے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔
یہ امر بھی باعثِ تشویش ہے کہ آج بھی کئی فرقہ وارانہ اور انتہا پسند تنظیمیں کھلے عام کام کر رہی ہیں، جو دہشت گردی کے بیانیے کو تقویت دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کو صرف کالعدم قرار دینا کافی نہیں، بلکہ ان کے خلاف مؤثر کارروائی ناگزیر ہے۔
نیکٹا کو فعال بنانا یقینی طور پر ایک درست قدم ہے، لیکن انسداد دہشت گردی کی کامیاب حکمت عملی کے لیے سیاسی عزم، پسماندہ علاقوں میں سرمایہ کاری، اور حکومتی وعدوں پر مکمل عملدرآمد بنیادی شرائط ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت ان وعدوں کو نبھائے گی، یا پھر ماضی کی حکومتوں کی طرح ایک اور ادھورا خواب چھوڑ جائے گی؟