ایک زمانہ تھا (1945- 1948) کہ امریکہ نے انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لئے روک دیا تھا۔ عشروں کے بعد اسی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو پیار پھٹکار سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قیام (1995) پر مجبور کر دیا۔ اس ادارے کے قیام کے ابتدائی سالوں میں جو ہیبت اور شان اس کے ساتھ منسلک تھی اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ڈبلیو ٹی او کے باضابطہ قیام کے وقت عالمی تجارت کے معاملات پر نظر رکھتے تھے۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک پر ایک خوف اور حیرت کی کیفیت تھی اور ڈبلیو ٹی او کے متعدد اور انتہائی ٹیکنیکل معاہدوں کے مطابق ملکی سطح پر قانون سازی کا چیلنج ان ممالک کو برسوں درپیش رہا۔ اس پر مستزاد یہ خوف کہ اگر ان معاہدوں کی کوئی خلاف ورزی ہو گئی تو ڈبلیو ٹی او کے تنازعات کے حل کے لئے بنائے گئے سخت قواعد و ضوابط کی روشنی میں تجارتی صعوبتوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نوے کی دہائی کے آخر میں اور اس کے بعد ہر طرف اکنامک لاء اور ڈبلیو ٹی او کے بارے میں جانکاری کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا تھا کہ اس سے ایک ایسی تجارتی لبرلائزیشن کی لہر اٹھے گی جس کے اثرات معیشت، سیاست، سائنس سے ہوتے ہوئے مذہب و ثقافت پر بھی پڑیں گے اور گلوبلائزیشن کے عمل کی تکمیل ریاستی ڈھانچوں کی ٹوٹ پھوٹ اور نئے عالمی نظام کی صورت میں نمودار ہوگی۔ ڈبلیو ٹی او کے بارے میں یونیورسٹیوں نے نئے پروگرام شروع کئے، ٹریننگ کے نام پر بہت سارا پیسہ صرف کیا گیا اور تکنیکی معاونت کے متعدد منصوبے چلے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دائرہ کار میں تاریخ میں پہلی بار ایسے امور کے بارے میں معاہدے بھی شامل کئے گئے جن کے بارے میں ترقی پذیر ممالک ہمیشہ یہ موقف رکھتے تھے کہ ان کا براہ راست عالمی تجارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور امریکہ سمیت دیگر امیر ممالک انہیں محض اپنے یکطرفہ تجارتی مفادات کے حصول کے لئے غریب ملکوں پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ کی موشن پکچر انڈسٹری، سافٹ وئیر انڈسٹری اور فارموسوٹیکل انڈسٹری نے اس سلسلے میں دنیا بھر میں بھرپور لابی کی اور بالآخر انٹلیکچول پراپرٹی جیسے معاہدوں کو بھی ڈبلیو ٹی او کے دائرہ عمل میں شامل کر لیا گیا۔
اقتصادی گلوبلائزیشن کا یہ ایجنڈا اتنے طمطراق سے شروع ہوا کہ لوگ اگلے چند سالوں کے دوران کی انتہا کو دیکھنے آرزومند تھے۔ کتنے ہی مضامین اور تحقیقی مقالہ جات اس نکتے پر لکھے گئے کہ ڈبلیو ٹی او کی طرح کے مزید اداروں کے قیام سے ملکوں کی خودمختاری محدود ہو کر ایک نئے عالمی سیاسی نظام کی بنیاد پڑ جائے گی۔ ٹیرف کو مقامی انڈسٹری کے تحفظ کے لئے بطور ہتھیار استعمال کرنے کے منفی اثرات کی تبلیغ ہر طرف جاری تھی اور ترقی پذیر ممالک کو یہ باور کروایا جاتا تھا کہ ہمہ جہت مقامی صنعتوں کے قیام کی بات اب متروک ہو چکی ہے۔ اب تو تقابلی فائدے یعنی Comparative Advantage کا اصول ہے کہ جن چند میدانوں میں آپ دنیا سے اچھے ہیں بس ان پر فوکس کریں اور باقی مال عالمی تجارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیرف کم کر کے باہر سے منگوائیں۔
ابھی ان سب باتوں کو کرتے ہوئے دو تین عشرے بھی نہیں گزرے تھے کہ ٹرمپ جیسے disruptive actors دنیا بھر میں نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ مقامی صنعتوں کے تحفظ، ملازمتوں کی گنجائش سمیت کئی مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور ڈبلیو ٹی او کا چارم مدھم پڑنا شروع ہو گیا۔ رہی سہی کسر اس بار ٹرمپ انتظامیہ نے پوری کر دی ہے۔ ڈبلیو ٹی او اور ٹیرف وغیرہ کے بارے میں اس کے قواعد و ضواط ایک طرف پڑے ہیں اور دوسری طرف من مانی پر مبنی ٹرمپ کی شروع کی گئی ٹیرف وار ہے جس کی زد میں چھوٹا بڑا ہر ملک آ رہا ہے۔ تجارت کے عالمی قوانین طاقتور ممالک کے سامنے بے بس اور خاموش ہیں اور گلوبلائزیشن کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ماتم کر رہے ہیں۔
یہ ہے اس نام نہاد رولز بیسڈ عالمی نظام کی کل حقیقت جسے ترقی پذیر ممالک پر عالمی اداروں اور مقامی ٹیکنو کریٹ اشرافیہ کے ذریعے مسلط کیا جاتا ہے۔ جب ترقی پذیر ممالک میں کوئی اس نظام کی مخالفت کرے تو اس کی بات کو جہالت، انتہا پسندی اور کم علمی کا شاخسانہ قرار دے کر قابل اعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہی کام اب امریکہ نے کر دیا ہے مگر مجال ہے کہ ہمارے ہاں کے تجارتی لبرل ازم کے انتہا پسند اس پر اسی انداز اور نفرت سے تنقید کریں جس کا مظاہرہ یہ اپنے لوگوں پر کرتے رہے!